اے پی ایس اورسقوط ڈھاکہ کے متاثرین کا مکالمہ

سانحہ بنگلہ دیش (ڈھاکا) اور آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہید طلباء کے درمیان تقریب کے دوران مکالمہ ہواٗ تقریب میں پینتالیس برس قبل ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے وہ بچے بھی شامل تھے جنہیں ماؤں کی کوک میں ہی قتل کردیا گیا تھا تاہم اب وہ جوانی گزار کر ادھیڑ عمری کی طرف جارہے ہیں جبکہ 1971 کے وہ بچے جن کی مختلف عمریں تھیں اُن کے بالوں میں بھی سفیدی چھلکنے لگی ہے۔

دو سال قبل برزخ پہنچنے والے آرمی پبلک اسکول کے شہدا کا جذبہ قابل دید ہے اُن کی آنکھوں میں چمک ہے مگر انہی میں کئی سوال چھپے ہیں تقریباً دو ہفتے قبل ایک اور بچے کی آمد ہوئی جو دو سال تک زندگی اور موت کی جنگ لڑتا رہا آخر اُس نے دنیا کو الوداع کہا اور یہاں برزخ میں آکر رہائش اختیار کرلی۔
تقریب سے قبل ہمارے درمیان مہمان خصوصی کی آمد ہوئی جن میں جناب قائد اعظم، دختر ملت فاطمہ جناح ، شہید لیاقت علی خان ، عبدالستار ایدھی ، امجد
صابری شہید اور گزشتہ روز آنے والے جنید جمشید کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔

سالانہ تقریب میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی چونکہ یہ 16 دسمبر کے حوالے سے سجائی گئی تھی اس لیے سقوطِ ڈھاکا اور اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کو اگلی نشتوں پر خصوصی جگہ دی گئی تھی۔

تلاوتِ کلام پاک سے شروع ہونے والی تقریب میں ہر معتبر شخصیت نے پاکستان کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کیے قائد اعظم نے افسردہ لہجے میں کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ایسی ریاست بنانا تھا جس میں سب کو مکمل آزادی ہو اور ہرشخص اپنے مذہب و دین کے مطابق عبادت کرسکے۔
پروگرام کے درمیان میں سانحہ سقوط ڈھاکا اور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی جانب سے تیار کیا گیا خصوصی مکالمہ پیش کیا گیا جس میں دونوں سانحات کا نشانہ بننے والے بچوں نے کہانی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

مکالمے کے دوران آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے بچوں نے ڈھاکا والے افراد سے پوچھا آپ کو کس نے اور کیوں قتل کیاٗ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی تھےٗ بس مختصر اور آسان الفاظ میں یہ بات کہ ہمیں سیاسی مقاصد کے لیے قتل کیا گیا اور قاتل کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی تھے۔

ڈھاکا میں شہید ہونے والے افراد نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں سے مکالمہ کیا کہ ہم پر تو مظالم ہوئے مگر تم تو اس اسکول میں تھے جہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں اور وہی مادرِ وطن کی حفاظت کرتے ہیں اور نہ ہی تمھارے والدین سیاسی تھے بلکہ تم علم کے حصول کے لیے اندر جمع تھے تو تمھیں کیوں قتل کیا گیا۔

آرمی پبلک اسکول کے شہید طلبا نے ایک ساتھ مل کر جواب دیا کہ شاید آپ کو اور ہمیں صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی نشانہ بنایا گیا ورنہ نہ ہی آپ نے کوئی قصور کیا نہ ہی ہم نے ، آپ کے قاتل آج اقتداروں کے اعلیٰ ایوانوں پر ہیں اور ہمارے قاتل آج امن کی بانسری بجانے اور اچھے دہشت گرد بننے کے لیے مذاکرات کی پیش کش کرتے ہیں جنہیں کوئی اور نہیں بلکہ ہم صرف اس لیے تسلیم کرنے پر تیار ہیں کہ کہیں ایسا سانحہ دوبارہ نہ ہو مگر یہ لوگ مفادات پورے ہوتے ہی پھر کچھ کریں گے۔

مکالمے کے آخر میں دونوں سانحات میں شہید ہونے والے افراد نے اونچی آواز میں ایک ساتھ کہا کہ ہم دونوں کا قاتل ایک ہی ہے اور ہمارے قتل کی وجہ اہم مقاصد ہی تھی کیونکہ ایک سانحے کو گزرے 45 جبکہ دوسرے کو گزرے 2 برس بیت گئے مگر آج وہی مجرمان ملکی سالمیت کو مضبوط بتا کر اپنی نوکریاں اور کرسیاں بچاتے ہیں۔

انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر کہا کہ اگر میرے اور فاطمہ جناح کے قتل کی تحقیقات کی جاتیں لیاقت علی خان کے قاتلوں کو گرفتار کر کے پشت پناہی نہیں بلکہ کیفرکردار تک پہنچا دیا جاتا تو آج ملک بہت خوشحال ہوتا اور اس کی وہی تعبیر ہوتی جس سوچ کے ساتھ اس کی جدوجہد کا آغاز کیا گیا تھا، انہی الفاظ کے ساتھ جناح نے اپنا چہرا جھکایا اور رخسار مبارک پر آنے والے آنسوؤں کو چپکے سے صاف کیا تاکہ ہم میں سے کسی کو پتہ نہ چلے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے