اسے کیا کہیےجناب

تعفن اور بدبو کے ماحول میں سانس لینے کی کچھ جگہ بن رہی ہے تو سوچ رہا ہوں چند الفاظ، تھوڑی سی محبت ، تھوڑا سا پیار اور کچھ غصہ سطروں کے حوالے کردوں۔

جنید بھائی کے چلے جانے سے، ایک سبق ہمیں سیکھ لینا چاہیے۔ اگر ہم سانپ میں زہر بھر کر سمجھتے ہیں کہ وہ صرف ہمارے دشمن کو کاٹے گا تو ہماری بیوقوفی ہے۔ ہم نے بھی جب چند لوگوں کی موت پر شادیانے بجائے ، تب کہاں تھی انسانیت؟ کیا انکے حلق سے چھوٹنے والے خون کا رنگ سرخ نہی تھا یا ہمارا اپنا خون سفید ہوچکا ہے؟

مجھے افسوس نہی ہوا کہ لوگوں نے جنید کو گالی دی۔ کیونکہ میں بھی اسی قوم کا حصہ ہوں جسے صرف ہم مسلک مرنے پر در د ہوتا ہے۔ مجھے افسوس اسلئے نہی کیونکہ نفرتوں کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے، وہاں تو نفرتیں ہی ہونگی، کچھ میری نفرتیں کچھ آپکی نفرتیں۔

اس بار میرا سینہ غم سے اس لئے پھٹ نہی گیا کیونکہ میں جانتا ہوں، مجھے علم ہے۔ اب ہر شخص جو ٹسوے بہا رہا ہے، اسکا جگر اسلئے کٹا ہے کیونکہ وہ اسے ہم مسلک یا ہم خیال تصور کرتے تھے۔ اب خواب اسلئے دیکھے گئے کیونکہ دل خواب دیکھنے والوں کا نکالا گیا ہے۔ ورنہ مرنے والے تو روزانہ ایسی اموات ، اسی ملک کی سٹرکوں پر مر رہے ہیں۔

وہ تب بھی محبتوں کا سوداگر تھا جب اسکی انگلیاں گٹار پر اوپر نیچے حرکت کیاکرتی تھیں ۔ اس نے تب بھی محبت بانٹی جب اسکے لب شرینی بکھیرا کرتے تھے۔ اسکا صرف حلیہ بدلا تھا، وہ نہی بدلا تھا۔ تسبیح ہاتھ میں پکڑ لینے کے بعد، اور داڑھی چہرے پہ سجا لینے بعد اسکے ماتھے پر گٹار والے نوجوان دیکھ کر کبھی بل نہی پڑے تھے۔ اس نے کبھی حقارت سے سبز دستار والوں کو نہی ٹہکرایا تھا۔

مجھےملاقات کا موقع نہ ملا، یہ میری بدقسمتی، پر میں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں۔ وہ جادوگر تھا، اسکا لمس ضرور پیار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیتا ہوگا۔ اسکے الفاظ خوشبوئیں اور اسکی مسکراھٹیں ضرور روشنیاں بکھیرتی ہونگی۔ وہ چراغ جسے روشنی بکھیرنی تھی، وہ پھول جسے کھلنا تھا، وہ سورج جسکی تپش سے اور وہ چاندجسکی کرنوں سے بہت سوں کو منزل کی نوید ملنی تھی۔ وہ آج دار فانی سے انسانی غفلت کی بنا پر کوچ کرگیا۔ وہ اپنے ہمراہ ایسے ہی سینتالیس چراغ لے گیا۔

آپ یہ سوال اکثر پوچھتے ہونگے کہ ہم ترقی کیوں نہی کرتے؟ جواب ہے، ہمارے اندر کی عدالت نے فیصلے سنانے چھوڑ دئیے ہیں۔ ہم نے اس کٹہرے کو منہدم کردیا جس میں انسان کبھی کھڑا ہوا کرتا تھا تو اسے عدالتوں میں گھسیٹنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ میرا دل ہے آج میں اپنا گریباں چاک کروں، اپنے سینہ پیٹ لوں، میرا دل ہے آج میں نوحے کہوں، آج قلم و کاغذ کی قید سے آزاد ہو کر، اپنے غم کا اظہار کروں۔ میں دل چیر کر دکھاؤں کہ یہ دل کب سے بھر چکا ہے، اس نے ہزارہ کمیونٹی میں معصوموں کا لہو بہتے دیکھا ہے، مدراس جلتے دیکھے ہیں، درس گاہیں، بازار، گلیاں، تفریح گاہیں کیا کچھ نہی ہوا، قائد کی قبر کے قریب کی جگہ ایک کوٹھہ بنا دی گئی، عورتیں اس ، اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سڑکوں پر بیچی گئی۔ساحر لدھیانوی کے چند اشعار پیش کرکے اجازت چاہونگا۔

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
تعفّن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے