1971 سے 2016 تک

پھر سے سولہ دسمبر آیا ، اپنی پرانی ہولناک اور غمناک یادوں کے ساتھ ، یہ تاریخ جب بھی آتی ہے اپنے ساتھ رنج ، درد ، کرب اور غم لاتی ہے ۔

آج سے 45 سال قبل اسی روز ہمارا پیارا ملک دو ٹکڑے ہو گیا تھا ، غلطی کس کی تھی اور کون درست تھا اس تفصیل میں جانا اب سوائے ضیاع وقت کے کچھ بھی نہیں ۔

بس اتنا ہے کہ : لمحوں نے خطاء کی اور صدیوں نے سزا پائی ۔

پھر یوں ہوا کہ ٹھیک 43 سال بعد اسی تاریخ یعنی سولہ دسمبر کو پشاور میں معصوم اور نہتے ہونہارانِ قوم اور مستقبل کے معماروں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا ، یہ دونوں واقعات اپنی جگہ انتہائی غمناک اور ہولناک تھے ہیں اور رہیں گے ۔

مگر سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں واقعات سے کیا سیکھا ؟

1971 کے سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پھر وہی سب کچھ ہوتا رہا جو اس سے پہلے ہوتا رہا تھا ، عوام اس کے بعد بھی ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے ، حکمران اس کے بعد بھی اپنی ہوسِ اقتدار میں مست رہے ۔

امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا گیا ، اس کے بعد بھی اپنے حقیقی دشمنوں کے بجائے شخصی دشمنوں کو لٹکایا جاتا رہا ، اس کے بعد بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا رہا ، مظلوموں پر مزید ظلم کیے جاتے رہے ، عوام کو پاگل بنایا جاتا رہا ، دوسروں کو اپنے اوپر مسلط کیا جاتا رہا ۔

یہاں تک کہ ہم 2014 میں داخل ہوئے ، پھر آرمی پبلک اسکول کا سانحہ رونما ہوا ، معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا ، سینکڑوں ماؤں کے لختِ جگر ابدی نیند سلا دیے گئے ، پھر سے بلند و بانگ دعوے ہوئے ، دہشتگردوں کا آخری حد تک پیچھا کرنے کا عزم کیا گیا ، مگر ہوا کیا ؟

آج برسوں گزر جانے کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 16 دسمبر 1971 کو کھڑے تھے ۔

آج بھی ملک چند لوگوں کی جاگیر بنا ہوا ہے ، آج بھی غریب دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے ، آج بھی دہشتگرد جب چاہیں ، جہاں چاہیں گھس آتے ہیں ۔

آج بھی ہم بحیثیتِ قوم انتہائی ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔

غیروں کےحکم پر جھکنا آج بھی ہمارے لیئے باعثِ افتخار ہے ، تعلیم و ترقی میں ہم آج بھی دنیا کی صفِ آخر کی قوموں میں شمار کیے جاتے ہیں ، کرپشن ، لوٹ مار ، بد دیانتی اور اقرباء پروری آج بھی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔

یاد رکھیئے کہ زندہ قومیں وہ نہیں ہوتیں جو گانے ریلیز کر لیں ، دن منا لیں یا شمعیں جلا لیں بلکہ وہ کہلاتی ہیں جو کسی بھی واقعہ یا سانحہ سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کو سنوارنے کی حکمت عملی طے کرتی ہیں ۔

آئیے آج کے دن ہم اپنے ان بزرگوں اور بچوں سے یہ وعدہ کریں کہ ہم تمہاری قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے بلکہ مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کریں گے ۔

یاد رکھئیے اگر ہم نے ان واقعات اور سانحات سے سبق نہ سیکھا تو کل کوئی نیا سانحہ ملک و قوم کو ٹکڑے کر سکتا ہے اور پھر ایک نئی تاریخ پر بھی ہمیں صرف رونا ہی پڑیگا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے