رسول اللہ ﷺ بحیثیت معلّم ومربی

اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات میں اپنے محبوب ،سیدالثقلین،امام الانبیاء حضرت محمد ﷺکو کامل و اکمل بنایاہے،یہ صفت آپﷺ کی ذات وصفات،افکاروتعلیمات ،کرداروعمل میں نمایاں اور آپ کی صحبت یافتہ جماعت میں اظہرمن الشمس تھی ،آپ ﷺنے وحی الہی کے ذریعے انسانیت کو شرف واعزاز کی معراج تک پہنچایا،بعثت معلم کائنات ﷺکے بعد شعور وآگاہی کے نئے دور کا آغاز ہوا ،رسول اللہ ﷺنے تعلیم و تدریس کے ایسے زرین وراہنما اصول بنائے جن سے انسانیت آج تک استفادہ کررہی ہے۔

تمام شعبہ ہائے زندگی میں تدریس ایک ایسا شعبہ ہے جس کو بعثت امام الانبیاء کے مقاصد میں شامل کیا گیا ،حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے تعمیرِ کعبہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور ان الفاظ میں دعا کی ” اے ہمارے پروردگار!ان میں ایک رسول بھیج جو انہی میں سے ہو ،جوان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے،انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اورانہیں پاکیزہ بنائے۔(129۔البقرہ)بلاشبہ تمام انبیاء اکرام احکام الہٰی کا ابلاغ بہت خوب صورت انداز میں کرتے رہے،وہ کتب و صحف کے ذریعے نصابِ تربیت وعمل اپنے اصحاب و انصار کو پڑھاتے تھے گویاہر نبی ایک کامیاب معلّم و مربی بھی تھا، ان کے وضع کردہ اصول و طرق اہل علم و منصب کے لیے مشعل راہ ہوتے تھے۔

امام الانبیاء ،محبوب کبریاء ،احمد مجتبیٰ حضرت محمدمصطفی ﷺکی زندگی کے ہرپہلو ،گوشہ،حیثیت اوراقوال و کردار کوامت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ،حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے،ہراس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہے،اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔(الاحزاب ۔21) حضرت جابربن عبداللہؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ "بلاشبہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لوگوں پرسختی کرنے والا ،عیب چین بنا کر نہیں بھیجا،بلکہ مجھے آسانی کرنے والامعلّم بناکر بھیجا ہے۔(صحیح مسلم ۔کتاب الطلاق) نبی کریم ﷺ ایک دن اپنے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے ، مسجد میں دوحلقے قائم تھے ،ایک حلقہ قرآن پاک کی تلاوت اور ذکر میں مشغول تھا اور دوسرا حلقہ تعلیم و تعلم کا تھا ،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سب خیر پر ہیں،یہ تلاوت قرآن پاک اور ذکراللہ کر رہے ہیں، اللہ چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو نہ قبول کرے ،اور یہ تعلیم وتعلّم کا ہے ،بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اور آپ ﷺ تعلیم کے حلقہ میں تشریف فرما ہوگے”۔(سنن ابن ماجہ۔1/83)

پیغمبر اسلام ﷺ کی تربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی، قرآن پاک میں ہے کہ "اور تم کو ان باتوں کا علم دیا جو تم نہیں جانتے تھے”۔(النساء ۔113)آپ نے تعلیم وتدریس کے اعلیٰ اور منفرد انداز واسالیب ،آدابِ تعلیم و تعلّم ،اساتذہ کرام کا مقام و مرتبہ اورعظمت متعلّمین کو مکمل اور احسن طریقے سے بیان کیا ہے کہ قیامت تک ہر آنے والا معلّم اس فن میں تعلیمات محمدیہ کا ممنون اوراحسان مند رہے گا۔ایک معلّم میں تعلیم وتربیت کے لیے فطرت سلیمہ ،اخلاق حسنہ ،تعلیمی قابلیت،رجائیت ،تحمل وبرداشت ،روحانیت اور اللہ کی مخلوق سے خیرخواہی کا جذبہ ہونا انتہائی ناگزیر ہے،تقویٰ ،امانت ،دیانت اورمحنت معلّم کے کام میں نکھار اور اسے ثمر آور بناتی ہیں،معلّم کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی شخصیت میں یہ تمام اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔

معلّم کائنات حضرت محمد ﷺ کے پاس کوئی بھی طالبِ علم آتاتو آپ اس کا استقبال او رخیرمقدم فرماتے تھے،جب کسی بات کا جواب دینا ہوتا یا کوئی مسئلہ سمجھانا ہوتا تو پوری طرح متوجہ ہوکرارشاد فرماتے تھے ،آپ ﷺنے حضرات صحابہ کرام کوبھی اس امر کی تاکید فرمائی،حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "عنقریب تمھارے پاس قومیں علم طلب کرنے آئیں گی،پس تم جب انہیں دیکھو تو کہو،رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق خوش آمدید!خوش آمدید!اور انہیں تعلیم دو۔(سنن ابن ماجہ)رسول اللہ ﷺ تحصیل علم پر اپنے صحابہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے ، امام حاکم ؒ نے اپنی المستدرک میں روایت نقل فرمائی کہ حضرت صفوان بن عسال المرادیؓ آپ ﷺ سے ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضرہوئے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "تم میرے پاس صرف اسی غرض سے آئے ہو؟”انہوں نے عرض کیا کہ” میں آپ کی خدمت میں صرف اسی مقصد کے لیے حاضر ہوا ہوں”۔آپ ﷺ نے فرمایا”تمھارے لیے خوشخبری ہے کیونکہ کوئی شخص طلبِ علم کے لیے نہیں نکلتا مگر فرشتے اس کے نکلنے پر خوش ہوکر اس کی خاطر اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں،یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ جائے”۔(المستدرک،کتاب العلم ۔1/100)

رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ اپنے شاگردوں پر کمال شفقت کا مظاہرہ فرماتے تھے،صحابہ کرام کو القاب اور ناموں سے پکارتے تھے،انداز تخاطب فن تدریس کا مسلمہ اصول ہے جس سے طلبہ میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے ، استاد کا طلبہ کو ان کے نام ، کنیت یااچھے لقب سے پکارنا جہاں استاد اور شاگرد کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے وہیں طلبہ کی ہمت افزائی اورخود اعتمادی کا باعث بھی بنتا ہے۔حضرت معاذبن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ "میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا ،میرے اورآپ کے درمیان کجاوہ کے آخری حصہ کے سوا کچھ نہ تھا،آپ ﷺ نے فرمایااے معاذبن جبل! ۔۔۔میں نے عرض کیا” لبیک یارسول اللہ وسعدیک!”پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے ،پھرفرمایا اے معاذ!۔۔۔میں نے عرض کیا”لبیک یارسول اللہ وسعدیک!”پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے ،پھرفرمایا اے معاذ!۔۔۔میں نے عرض کیا”لبیک یارسول اللہ وسعدیک!”آپ ﷺ نے فرمایا :کیا تمھیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ کابندوں پر کیا حق ہے؟

میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا”بلاشبہ اللہ کا بندوں پریہ حق ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں”،پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے ،پھر فرمایا اے معاذ!۔۔۔میں نے عرض کیا ” لبیک یارسول اللہ وسعدیک!”آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ جب بندے ایساکریں توان کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا ،اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”وہ انہیں عذاب نہ دے "۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر6500)

معلّم انسانیت ،پیغمبراسلام حضرت محمدﷺکاباالخصوص اپنے شاگردوں سے اور بالعموم ہرانسان سے خلوص،محبت اور خیرخواہی والا رشتہ تھا،آپ صحابہ کرام کے لیے نرم گوشہ تھے،شاگرد وں کی خدمت،کارکردگی اورجانثاری سے خوش ہوکر دعائیں دیتے تھے،حضرت امیرمعاویہؓ،حضرت انس بن مالکؓ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت جابرؓ سمیت کئی صحابہ کرام ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے علم ،ھدایت،رحمت اور برکت کی دعا دی۔

رسول اللہ ﷺجب کوئی بات سمجھتے تو خوب وضاحت اور مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق بیان فرماتے تھے،مختصر اور جامع گفتگو فرماتے تھے،اماں جان حضرت عائشہ صدیقہؓ ارشاد فرماتی ہیں "رسول اللہﷺ کی گفتار جدا جدا ہوتی تھی،ہرسننے والا اس کو سمجھتا تھا”۔(سنن ابی داؤد)فرماتی ہیں "رسول اللہﷺتمھاری طرح جلدی جلدی گفتگو کرنے والے نہیں تھے۔ ” (صحیح البخاری،حدیث نمبر3568)آپ ﷺ دوران تعلیم کثرت سے بات کو دہرایا کرتا تھے اورموضوع کی وضاحت اور دلنشینی کے لیے مناسب اشاروں کا استعمال فرماتے تھے(یعنی باڈی لینگویج کا استعمال کرتے تھے)،حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے عمارت کی مانند ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے،راوی فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کی طرح کیا۔”(صحیح البخاری۔حدیث نمبر6026)

رسول معلّم حضرت محمد ﷺ تفہیم کلام کے لیے خاکوں اور نقشوں کا بھی استعمال فرماتے تھے ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت فرماتے ہیں "رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا،پھر فرمایا "یہ اللہ تعالیٰ کی راہ ہے”پھرآپ ﷺ نے اس کی دائیں جانب اور اس کی بائیں جانب خطوط کھینچے ،پھر فرمایا "یہ راہیں ہیں،ان میں سے ہر راہ پر شیطان بلا رہا ہے”۔پھر آپ ﷺ نے تلاوت فرمائی(ترجمہ) اور بلاشبہ یہ میری راہ ہے سیدھی،سو تم اس پر چلواور دوسروں کی راہ پر مت چلو،وہ تمھیں اس (اللہ) کی راہ سے جدا کردیں گے۔(مسنداحمد)

ایک کامیاب معلّم اپنے شاگردوں کو معلوم سے غیرمعلوم کی طرف ،محسوس سے غیر محسوس کی طرف اور آسان سے مشکل کی طرف تدریجاً لے جاتا ہے۔یہ وصف نبی کریم ﷺکی سیرت میں بکثرت ملتا ہے ،آپﷺ مختلف مثالوں کے ذریعے صحابہ کرامؓ کوسمجھاتے تھے،مثلاحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اللہ کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ جیسی ہے۔” (صحیح البخاری۔حدیث نمبر6407)ھادی عالم حضرت محمدﷺ کی زندگی میں وہ تمام تعلیمات جن کا آپﷺ درس دیتے تھے عملاً موجود تھیں ۔قانون ہے "عملی تعلیم ،لفظی تعلیم سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔”

معلّم کائنات رسول اللہ ﷺ دوران درس موضوع سے متعلق اپنے شاگردوں سے سوالات کرتے تھے تاکہ ان کی دلچسپی اور توجہ بڑھے،مثلاً حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے "آپ ﷺ نے استفسار فرمایا "کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟”صحابہ کرام نے عرض کیا "اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں”۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اپنے بھائی کے متعلق تمھارا وہ بات ذکر کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔” عرض کیا گیا "اگر میرے بھائی میں میری کہی ہوئی بات موجود ہو ،تو آپ(اس کے بارے میں )کیا فرماتے ہیں ؟”

آپﷺ نے ارشاد فرمایا "اگر اس میں تمھاری کہی ہوئی بات ہو ،تو تم نے غیبت کی،اگر اس میں تمھاری کہی ہوئی بات نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا”۔(صحیح مسلم ۔حدیث نمبر2589)

رسول کریم حضرت محمدﷺ نے حلقہ درس میں صحابہ کرام کو مفید اورضروری سوالات پوچھنے کی اجازت دے رکھی تھی،بلکہ اچھے اور عمدہ سوالات کی تعریف اور حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے،آپ ﷺ سائل کے مناسبِ حال جواب کو اختصاراًیا تفصیلاً ارشاد فرماتے تھے اور دوران درس اپنے طلبہ کو سبق کے اعادہ کا موقع دیتے تھے ۔

حکم الہی کے موافق آپ ﷺ حضرات صحابہ کرام کے ساتھ اکرام اور تواضع سے پیش آتے تھے،حضرت معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں "جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کی طرف بھیجا ،رسول اللہ ﷺ وصیت کرتے ہوئے ان کے ساتھ نکلے ،اس وقت معاذؓ سوار تھے اور آپ ﷺ سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے "۔(مسنداحمد۔حدیث نمبر462) آپ ﷺ اپنے اصحاب کے لیے نرم گوشہ ،شفیق و مہربان تھے،قرآن پاک میں آپ کی اس صفت کو بیان کیا گیا "پس آپ اللہ کی رحمت سے ان کے لیے نرم ہوئے ہیں۔”(ال عمران۔159 )فقیر ونادار طلبہ کو اپنی ذات اور اہل وعیال پر ترجیح دیتے تھے،اصحاب صفہ کا اکرام اپنے اور اہل خانہ سے پہلے فرماتے تھے۔
رسول معلّم ﷺ طلبہ کی صلاحیتوں اور استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ کرتے تھے،دورا نِ تعلیم طلبہ کے حالات اور کیفیات کا خوب ادراک رکھتے تھے،ان کے مزاجوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا نوٹس لیتے اور قابل اصلاح پہلوؤں کی طرف توجہ فرماتے تھے،قدیم و جدید طلبہ کی خبر گیری کرتے اور ان کی غیرحاضری پرپوچھ گچھ فرماتے تھے ،اس کا سبب اور خیریت بھی دریافت فرماتے تھے۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ بحیثیت معلّم پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں،ایک معلّم ،مدرّس اور استاد آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی اپنے فن میں کمال حاصل کرسکتاہے،اس میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ موجودہ دور میں ترقی یافتہ نظام ہائے تعلیم بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلیماتِ معلّمِ انسانیتﷺ سے ہی مأخوذ شدہ ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس متاع عزیز کی قدر کرلیں ورنہ تنزلّی اور احساس محرومی مسلم قوم کا مقدر رہے گی۔

حوالہ جات:

آسان ترجمہ قرآن
الصحیح البخاری
الصحیح المسلم
جامع الترمذی
مسند احمد
سنن ابن ماجہ
الرسول المعلّم
بنی کریم ﷺبحیثیت معلّم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے