بھارت یاترا:چل چھیا چھیا اور چنائی کی ریجنل ٹرین میوزیم

کسی چیز کے بارے میں کتاب میں پڑھنا معنی رکھتا ہے جبکہ اسے حقیقت میں دیکھ کر اسے چھو کر اس کے بارے میں جاننا ایک الگ بات ہے یہ بات سنی تو تھی لیکن تجربہ نہیں تھا اس بات کا تجربہ بھی بھارتی شہر چنائی میں ہوا – پرنٹ جرنلزم کے کلاس میں پروفیسر نے ایک اسائمنٹ جو کہ شہر میں ہونیوالی سرگرمی کی رپورٹنگ سے متعلق تھا ہماری ٹیم کو چنائی میں واقع ریجنل ریلوے میوزیم پر سٹوری کرنے کو کہا گیا راقم کی یہ پہلی سٹوری تھی جس کیلئے کالج سے نکلنا تھا اس لئے زیادہ تجسس تھا کہ آخر ہم بھی یہ شہر کب دیکھیں گے – ٹیم میں جو دو طالبات ساتھ تھی ان میں ایک تامل ناڈو جبکہ دوسری کیرالہ کی رہائشی تھی راقم نیو میڈیا کا طالب علم تامل ناڈو کی طالبہ پرنٹ اور کیرالہ کی طالبہ ریڈیو جرنلزم پڑھ رہی تھی-کالج سے نکلنے کے بعد پتہ چلا کہ شہر کے ایک مخصوص علاقے سے آدھے چنائی کو کور کرنے والی ایک ریلوے ٹریک ہے جس میں بیٹھ کر لوگ سفر کرتے ہیں ہم نے بھی اسی ریجنل میوزم جانے کیلئے پانچ روپے کے ٹکٹ لئے اور ہمیں ایک مخصوص سٹاپ پر اترنے کا کہا گیا – ٹیم کے ہمراہ ہم بھی چنائی کے آدھے شہر کو سفر کی سہولت دینے والے ٹرین میں بیٹھ گئے مزے کی بات یہ تھی کہ یہ ٹرین بجلی سے چلتی تھی حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ ہماری طرح ان کے ہاں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے لیکن اتنی نہیں جتنی ہماری ہے لیکن پھر بھی ریل گاڑی بجلی سے چل رہی تھی-

سب سے مزے کی بات تو یہ تھی کہ صرف پانچ روپے میں آدھے چنائی کا سفر شہریوں کو فراہم کرنے والی یہ ٹرین ہر سٹاپ پر تین سے پانچ منٹ کیلئے رکتی تھی اور ہر کوئی اس میں بیٹھ جاتا جن کو سیٹ ملتی وہ بیٹھ جاتے جن کو نہیں ملتی وہ کھڑے رہتے -اپنے پہلے سفر میں چنائی کے اس ریل گاڑی میں بیٹھ کر ہمیں شاہ رخ والا گانا جو اس نے ایک ٹرین کی چھت پر گایا تھا "چل چھیا چھیا” والا گانا بہت یاد آیا اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ کسی کو یہ گانا گاتے ہوئے ڈانس کرتے – ٹرین میں آگے پیچھے دیکھ کر آرام سے بیٹھ گئے کہ کہیں پتہ چل گیا کہ پاکستانی ہے تو جوتوں سے "چل چھیا چھیا” ہوگی اس لئے دل ہی دل میں اپنی بیگم کو یاد کرکے "چل چھیا چھیا”کہہ دیا- اپنے اس عمل پر مسکرا بھی رہے تھے-ٹیم کی ساتھی طالبات نے پوچھ بھی لیا کہ خیریت ہے کیوں ہنس رہے ہو لیکن ہم اپنی بے وقوفی ان کے سامنے بیان کرنے سے قاصر تھے اس لئے ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہہ دیا کہ بھارتی سرکار کی اس سہولت پر ہنس رہے ہیں- وہ بھی کچھ سمجھتے نہ سمجھتے ہوئے خاموش ہوگئیں-اس ٹرین میں سفر کرتے ہوئے یہ تجربہ بھی ہوا کہ بھارتی بھی پاکستانیوں سے کم نہیں یعنی بعض لوگ پانچ روپے کا ٹکٹ بھی نہیں دیتے اور سٹاپ پر اتر جاتے ہیں چونکہ اس میں زیادہ طالب علم ، غریب اور مزدور طبقے کے لوگ جاتے ہیں اس لئے زیادہ چیکنگ نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی پکڑا جائے تو پھر تین گنا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے- انہی جیسے لوگوں کیلئے ٹرین کی دیواروں پر ہندی اور انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا کہ برائے مہربانی ٹکٹ لیکر سفر کریں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے مجرم تصور ہونگے لیکن لکھے ہوئے کی پروا ہ کون کرتا ہے-

ٹرین سے اترنے کے بعد شہر میں چلنے والی جی ٹی ایس میں بیٹھ کر شہر سے باہر ایک مخصوص سٹاپ پر اتر گئے جہاں سے پندرہ منٹ کی واک پر چنائی میں واقع ریجنل ریلوے میوزیم چلے گئے جہاں گیٹ پر موجوداہلکار نے ہمارا استقبال کیا جب انہیں بتایا گیا کہ ہم صحافی ہیں اور اس عجائب گھر پر سٹوری لکھنے کیلئے آئے ہیں تو انہوں نے بہت تعاون کیا – اس ریجنل میوزیم میں بھارت میں اب تک چلنے والے تمام ٹرینوں کے مختلف ڈیزائن رکھے گئے ہیں اس میں سٹیم سے چلنے والے انجن بھی تھے ریلوے کی پٹڑیوں سے لیکر ڈیزائن سمیت مختلف ادوار میں بھارتی وزراء کی اہم تصاویر بھی شامل تھی اس عجائب گھر آکر پتہ چلتا ہے کہ ریلوے دو صدی قبل کیسے تھی وہاں پر ہم نے دیکھا کہ مختلف سکولوں کی بچوں کا گروپ یہاں پر سیر کرنے آئے ہوئے تھے پوچھنے پر بتایا گیا کہ کچھ دن سکول کے بچوں کیلئے مختص ہیں اور کچھ عام لوگوں اور غیر ملکیوں کیلئے ، جس کا بنیادی مقصد ان لوگوں کو بھارت میں ریلوے کے نظام کو سمجھنے اور ریلوے کی تاریخ کے بارے میں معلومات دینا ہے-جب اس بارے میں ریلوے اہلکار سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے نصاب میں اس طرح کچھ نہیں کہ بچوں کو معلوم ہو سکیں تو اس نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ بھائی تھیوری کی بات الگ ہے لیکن عملی طور پر ان چیزوں کو دیکھنا ان بچوں کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ مستقبل میں یہی لوگ ہمارا سرمایہ ہے اور اگر انہیں ابتداء سے ہی تھیوری کیساتھ عملی طور پر اس طرح کی مواقع فراہم کئے جائیں تو یہ ان کی ذہنی نشوونما اور تعلیم کیلئے بہتر ہے-اور ان صاحب کی یہ بات سن کر ہم نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لی – ایک طرف ہم ہیں جس طرح پاکستان کو اللہ تعالی چلاتا ہے اسی طرح خصوصی طور پر ریلوے پربھی اللہ تعالی کی خصوصی مہربانی ہے- ورنہ اس ادارے میں بیٹھی بیورو کریسی اور وزراء اسے کھا کھا کر ختم ہوگئے لیکن….

وہاں پر اسائمنٹ کرنے کے بعد ہماری ٹیم کی طالبات نے اسی میوزیم میں بیٹھ کر ابلے ہوئے دال چاول کیلے کے پتے میں کھا لئے- لیکن راقم کا چونکہ دل ابلے چاول
اور دال کھا کھا کر بھر گیا تھا اس لئے بسکٹ کھا کر نکل پڑے اور پھر دوسرے راستے سے اپنے کالج آنے کیلئے چنائی شہر میں چلنے والی میٹرو ٹرین میں بیٹھ گئے- شہر کے بیرونی علاقے کو کور کرنے والی ٹرین تو پرانی تھی لیکن یہ نئی میٹرو ٹرین جو کہ حال ہی میں شروع کی گئی تھی اندرون شہرمختلف سٹاپ پررکتی تھی اس کی ٹکٹ کی رقم تیس روپے تھی لیکن یہ جدید ترین تھی اور اس میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہونے کو ترجیح دی جاتی تھی- نئی صاف اور خوبصورت میٹرو ٹرین کیلئے بھی سڑک کے درمیان میں جگہ بنائی گئی تھی یعنی سڑک کے دونوں اطراف میں ٹریفک چلتی تھی جبکہ درمیان میں اوپر بنائی گئی پل پر ریلوے ٹریک تھی جو کہ بجلی سے چلتی تھی – چونکہ یہ جدید ترین تھا اس لئے ہمیں کالے رنگ کے پلاسٹک کے گول ڈیزائن والے دو چپ دئیے گئے جسے ایک داخلے کے وقت آپ سسٹم میں ڈالیں گے تو آپ کیلئے راستہ کھل جائیگا جبکہ دوسرے چپ کوبیرونی دروازے پر ڈالنے سے نکلنے کا راستہ مل جائیگا-یعنی پرانے نظام کی طرح یہاں پر بغیر ٹکٹ چلنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا-ساتھی طالبات نے بتایا کہ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاری ہے اور اب چینی کمپنیاں انڈر گراؤنڈ بھی چنائی میں ریلوے ٹریک بنا رہی ہیں جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں تعمیراتی کام جاری ہے اور ٹریفک کا نظام گڑ بڑ ہے لیکن ایک بات جس پر بھارتی شہریو ں کو داد دینے کو دل کرتا ہے کہ کہیں پر ٹریفک میں بے ترتیبی ، اور سپیڈنگ نظر نہیں آئیگی نہ ہی ہارن سننے کو ملیں گے ہر کوئی اپنے لائن میں جا رہا ہے-نہ ہماری طرح ریلوے ٹریک پر کوئی بھاگ دوڑ کرتا ہے یا پھر کھانے پینے کی اشیاء گراتا ہے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے