سانحہ کوئٹہ رپورٹ: وزیر داخلہ حاضر ہوں

پاکستان میں کسی معاملے پر کمیشن کا قیام ایک مذاق تصور کیا جاتا ہے، سقوط مشرقی پاکستان سے سانحہ ماڈل ٹائون تک کمیشنز کی تاریخ نہایت بھیانک تجربات کے سوا کچھ نہیں، اس صورتحال میں سانحہ سول اسپتال کوئٹہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن رپورٹ چند مستنشیات میں ہے جس میں حکومتی نااہلی اور ناکامی، حقائق چھپانے کے انکشافات قوم کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ قومی نوعیت کی اس رپورٹ کو میڈیا میں بھی معقول توجہ نہ مل سکی، دہشتگردی کے خلاف جنگ تو جاری ہے مگر آج بھی ہم سچ کا سامنا کرنا پر تیار نہیں، سلام ہے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جنہوں نے خود فریبی کے اس دور میں سچ بولنے کی جسارت کی اور سوال یہ ہے کہ دہشتگردی تو جھیل لینگے مگر حکومتی نااہلی کی سزا کیوں جھیلی جائے؟

اگست میں ہونیوالے سانحہ سول اسپتال کوئٹہ میں 50 وکلا سمیت 78 افراد ہلاک ہوئے تھے، دہشتگردوں نے منصوبے کے تحت ممتاز وکیل رہنما بلال کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور جب وکلا لاش لیکر سول اسپتال پہنچے تو یہ خوفناک دہماکہ کیا گیا، سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ کی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ 27 دن میں مکمل کی گئی اور 33 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن نے آئی ایس آئی، فوجی حکام، نیکٹا اور پولیس سے بھی معلومات حاصل کیں، تلخ حقائق پر مشتمل یہ رپورٹ ہولناک نااہلی، کوتاہیوں اور حکومتی کنفیوژن سے پردہ اٹھاتی ہے

تحقیقاتی رپورٹ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وزیر داخلہ کی جانب سے واقعے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے الزام کو جھوٹ قرار دیا گیا ہے، نیکٹا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کا آج تک ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہو سکا، کالعدم تنظیموں کے بارے میں حکومتی اقدامات کو قطعی ناکافی قرار دیا گیا ہے، جنداللہ جیسی تنظیمیں ابتک کالعدم نہیں جبکہ متعدد تنظیمیں نام بدل کا کھلم کھلا کام کر رہی ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی سرحدوں کی نگرانی نہ ہونے کے باعث دہشتگرد اور اسلحہ مسلسل ملک میں داخل ہو رہا ہے، وزارت مذھبی امور کو ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام قرار دیا گیا ہے، میڈیا پر دہشتگردوں کے نظریات کی ترویج نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے اور سب سے اہم ترین امر یہ ہے کہ وزارت داخلہ کو غیر موثر اور بے سمت قرار دیا گیا ہے

وزارت داخلہ کے متعلق رپورٹ کے ریمارکس غیر متوقع تو نہیں مگر آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں، ایک سو دس صفحات کی رپورٹ کو پڑھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عسکری ادارے تو کسی حد تک مطلوبہ اقدامات کر رہے ہیں مگر حکومت ناکام نظر آتی ہے، ایک وقت تھا جب حکومت تحریک طالبان سے مذاکرات پر تیار تھی آج بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بعض حکومتی ارکان اس حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں، بہرحال رپورٹ سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اس کی سب سے بڑی مثال نیکٹا ہے جس کے بارے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے، سولہ یا اس سے زائد حساس اداروں کی معلومات کو یکجا کرنے کیلئے مرکز بھی اسی ادارے کے تحت بننا تھا، کالعدم تنظیموں کے بارے میں حکومت کا معیار بھی ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، جہاں ضرب عضب کا کریڈٹ لینے کی بات آئے تو حکومت آگے نظر آتی ہے مگر اقدامات کے حوالے سے صرف بڑھکیں ماری جاتی ہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف حکومت کی غیر سنجیدگی اور کنفیوژن ثابت کرنے کیلئے زیادہ بحث کی ضرورت ہی کیا ہے جب نیکٹا جیسی بڑی مثال سامنے ہے
وزارت داخلہ پر سنگین اور ٹھوس الزامات پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے، ممکن ہے یہ سیاسی دائو ہو مگر سپریم کورٹ کی یہ رپورٹ بہر طور ایک ٹھوس حقیقت ہے اور اسے صرف ایک واقعے کی رپورٹ نہ سمجھا جائے بلکہ ماضی میں دہشتگردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں یہ ان کا بھی احاطہ کرتی ہے، صوبائی حکومتیں، ادارے اور حکومت، سب کی کارکردگی کم و بیش ہر مرحلے پر سانحہ کوئٹہ جیسی ہی رہی ہے، الزام بیرونی عناصر پر ڈال کر عوام کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، وزیر داخلہ چوہدری نثار پر دہشتگردوں کے خلاف مبہم پالیسی اور کنفیوزڈ ہونے کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں، کالعدم تنظیموں کے حوالے سے بھی پسند ناپسند کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں، اسی باعث شاید تحقیقاتی رپورٹ کے
حقائق کچھ زیادہ حیران کن نہیں بلکہ حقیقت حال کے عکاس سمجھے جا رہے ہیں

سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو سال گزر گئے مگر متاثرہ خاندان آج بھی اسی کربناک دن میں جی رہے ہیں، اس دوران کئی بار دشمنوں کی کمر توڑ دی گئی، نیٹ ورک برباد کر دیئے گئے مگر بدقسمت خاندانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ہمارے دعووں اور اقدامات سے مطمئن نہیں، کیوں یہ خاندان ذمہ داران کی نشاندہی اور انکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، کہتے ہیں صوبائی حکومت کو خاص طور پر آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشتگردی کے حوالے سے بذریعہ خط آگاہ کیا گیا تھا مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، آرمی پبلک اسکول کی اندرونی سیکورٹی بھی واقعے سے پہلے کم بھی کی گئی، متاثرہ خاندانوں کا موقف ہے کہ اندرونی سیکورٹی عسکری اور بیرونی سیکورٹی صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی، ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی گئی، ان احتجاجی خاندانوں نے حکومت کی مراعات و معاوضے کو بھی ٹھکرا دیا، کیا ذمہ داران کی نشاندہی کا مطالبہ غلط ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ حکومت تو حکومت میڈیا بھی ان دکھ بھرے خاندانوں کو توجہ دینے پر تیار نہیں، خوف یا دبائو مگر یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے، سانحہ کوئٹہ کا کمیشن تو بن گیا اے پی ایس پر تو اسکی بھی ضرورت نہ سمنجھی گئی

وزارت داخلہ کا معاملہ تو اس حد تک سنگین ہو چکا ہے کہ سیف سٹی قرار دیئے جانیوالے دارالحکومت اسلام آباد کی سیکورٹی بھی ایک اہم سوال بنی ہوئی ہے، قائد اعظم یونیورسٹی منشیات فروشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں شراب، چرس، ہیروئن، کوکین اور دیگر منشیات تسلسل سے فراہم کی جا رہی ہیں، حال ہی میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ بڑے نجی جامعات اور کالجز میں منشیات فروشوں نے قدم جما لیے ہیں کیونکہ طالبعلم باآسانی منشیات کے سحر میں جکڑ لیے جاتے ہیں، جو ادارے منشیات فروشوں کو نہ روک پا رہے ہیں ان سے دہشتگردی کی روک تھام کی توقع رکھنا یقینی طور پر محض دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے

حکومت، فوج، پولیس سب اپنی جگہ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف سب سے بڑی قربانی عوام نے دی ہے، نجانے کتنے نہتے بیگناہ شہری حتیٰ کہ معصوم بچے دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں جان سے گزر گئے، کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے دہشتگردی میں بیگناہ اور نہتے شہریوں کی ہلاکت میں کمزور پالیسی، حکومتی نااہلی، متعلقہ اداروں کی ناکامی اور سرکاری کوتاہیوں کا حصہ کتنا ہے؟
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے