نابغہ روزگار شخصیت ابوالاثر حفیظ جالندھری

اردو کے نامور شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھریؒ پنجاب کے مشہور ضلع جالندھر میں 14 جنوری 1900ء میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شمش الدین تھا ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔ مشن ہائی سکول جالندھر میں زمانہ طالب علمی کے دوران وہ میرٹھ ‘ دہلی اور ممبئی کے سیر سپاٹے کرتے رہے ۔ تعلیم پر پوری توجہ نہ دی ۔ اسی زمانے میں آپ کو اردو ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی اور باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کیا۔

1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران جنگ کے موضوع پر نظم لکھ کر انعام حاصل کیا۔1918ء میں مولانا گرامی سے فارسی کا درس لینا شروع کیا اور اس دوران 1921 ء میں جالندھر سے ایک رسالہ ’ اعجاز ‘ نکالنا شروع کیا لیکن مالی نقصان کی وجہ سے اس رسالے کو بند کرناپڑا۔1925ء میں ریاست خیر پور سندھ کے دربار سے وابستہ ہوگئے ۔ کچھ عرصہ بعد ریاست کے سامنے اپنی مشہور نظم ’ رقاصہ ‘ پڑھی تو یہ حکمران کے غضب کا شکار ہوئے ۔ اور ریاست بدر کر دیئے گئے ۔’ آپ ‘ مختلف رسائل کے مدیر بھی رہے ہیں جن میں ’مخزن ‘ ’ حمایت اسلام ‘ نونہال ‘ ہزار داستان ‘ تہذیب نسواں ‘ اور ’ پھول ‘ قابل ذکر ہیں۔ آپ گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادر الکلام شاعر تھے تاہم آپ کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو 4 جلدوں میں شائع ہوا ہے ۔ جس کے ذریعہ آپؒ نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر آپ کو فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا تھا ۔

آپؒ کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار ،تلخابہ شیریں اور سوز و ساز افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر گیتوں کے مجموعے ، ہندوستان ہمارا پھول مالی ، بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔ حفیظ جالندھریؒ کا شمار ملک کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے ۔ آپؒ نے قیام hafeezپاکستان سے پہلے تاریخ ہند بھی مرتب کی جو اپنے وقت میں یہاں کے سکولوں میں داخلِ نصاب تھی ۔ آپ انگریزی دورحکومت میں آرمڈ فورسز میں ڈائریکٹر آف مورال کے عہدہ پر فائز تھے ۔ آپ قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ کے جلسوں میں خطاب سے پہلے اپنی نظموں سے عوام کے دلوں کو گرماتے تھے ۔

حفیظ جالندھریؒ کا دوسرا بڑا کارنامہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کا قومی ترانہ ہے ۔ اس ترانے کی تخلیق کے باعث وہ ہند ہی نہیں بلکہ وہ پاک میں بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ جہاں تک آپ کی شخصیت کا سوال ہے تو آپ کبھی کسی کے رعب اور دبدبہ میں ہر گز نہیں آتے تھے اور نہ ہی کسی پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ۔ بڑے بڑوں کو ڈانٹ پلا دیتے ۔ سید ضمیر جعفری اور عزیز ملک نے جو حفیظؒ کے بہت قریب رہے ہیں۔ ان کے ذریعہ بیان کئے گئے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑا نہ سمجھتے ، کسی کی قصیدہ گوئی اور خوشامد تو درکنار وہ کسی سے جھک کر ملنا بھی کسرِ شان سمجھتے ۔
چاہے کوئی بہت بڑا سرکاری افسر ہو یا کوئی وزیر وہ اپنا مقام و مرتبہ اس سے اوپر ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے ۔ البتہ چھوٹوں سے ان کا رویہ محبت اورشفقت والا ہوتا اور عام آدمی سے برابر کی سطح پر بات کرتے ۔

سچ تو یہ ہے کہ شعر گوئی کی صلاحیت فطری تھی ۔ آپ کا مطالعہ تو محدود تھا اور آپ کو اکتسابِ علم کے مواقع بھی کم ملے تھے مگر آپ کی طبیعت میں موزونی بہت تھی ۔ اس لئے آپ کی شاعری کا نمایاں وصف بھی اس کی سادگی اور شیرینی ہے ۔ اگر حفیظ صاحبؒ کے بوئے ’ ہفت پیکر ‘ کی بات کی جائے تو یہ آپ کے مختصر افسانوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کے مقدمے میں سید امتیاز علی صاحب لکھتے ہیں ۔ ’’ جو لوگ حضرت حفیظؒ ؒ کو بحیثیت شاعر جانتے ہیں اگر ان سے کہا بھی جائے کہ حفیظ کے افسانے ان کی شاعری سے کم قابل قدر نہیں تو فی الحال کوئی اس پر غور کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا لوگ آپؒ کی شاعری سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ اب انہیں کسی دوسری حیثیت میں دیکھ کر داد دینے کی مطلق گنجائش نہیں رہتی ۔۔۔ ہمیشہ یوں ہی ہوتا ہے۔ ۔۔۔ دنیا صرف ایک ہی حیثیت سے کسی کو غیر معمولی داد دیا کرتی ہے ۔ ایک وقت میں دو حیثیتوں سے اعتراف کمال کرنا اس کی بساط سے باہر ہے ۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا حوصلہ اس سے بھی زیادہ تنگ ہے ۔ وہ شاعری میں بھی مختلف اصناف سخن کے متعلق حفیظ کے کمال کا اعتراف کرنے سے قاصر رہی ہے ۔ اسی received_1004702129571715طرح سوز و ساز کی نظموں میں ’ فرشتہ کا گیت ‘ دیکھئے ۔ اس کا وزن آسمانی نغموں کے لئے کس قدر موزوں ہے ۔ کانوں کے ساتھ دل بھی یہی محسوس کرتا ہے کہ ایک رحمت کا فرشتہ ہاتھ میں چھوٹی سی چیز لئے بے فکری کے عالم میں تانیں اڑاتا پھر رہا ہے ۔ آپؒ کی علمی خدمات کو دیکھتے ہوئے پڑوسی ملک ( پاکستان ) نے آپ کو ہلال امتیاز اورحسن کار کردگی کے لئے کئی ایوارڈوں سے نوازا تھا ۔

آپ کی شاعری عموماً رومانی ۔ مذہبی ۔ ملی اور تخلیقات قدرت کے موضوعات پر ہے ۔ جس میں برصغیر کے مناظر کی تصاویر کے ساتھ ساتھ ہندی اور اردو کی بہت ہی خوبصورت آمیزش پائی جاتی ہے جو مشترکہ روایت کی ایک جامع تصویر ہے ۔ آپ کی شاعری کی ایک اور خصوصیت اس کی غنیات ہے ۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لئے آپ نے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جو پوری طرح گنگنائے جا سکتے ہوں ۔

آپ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی گیت لکھے تھے ۔ اور گیتوں کو بھی انہوں نے ایک نیا انداز عطا کیا تھا ۔ شاید اسی لئے آج تک حفیظ جالندھریؒ کی شناخت ’ ابھی تو میں جوان ہوں ’ کے حوالہ سے کی جاتی ہے ۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیونکہ اس میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر
نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اوروقت کے دل پر اپنا ایک گہرا اثر چھوڑتے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ آپ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے ۔ آپ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے ۔

آپ نے اپنی غزلوں میں انتہائی سلیس زبان کا استعمال کیا ہے اور گردو پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ۔ ایک طرح سے آپ نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی ۔ آپ کے یہاں روایت سے بغاوت کا دستور تھا۔ آپ کے کچھ اشعار تو آج کے حالات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی حیثیت ماوراء اثر ہے ۔ آپ کا انتقال مختصر علالت کے بعد 21 دسمبر 1982 ء کوسروسزہسپتال لاہور میں ہوا ۔ آپ اقبال پارک میں مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودۂ خاک ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے