گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ایک چینی عمر رسیدہ شخص سے میری ملاقات ہوئی ، وہ شخص چینی بحریہ کا ریٹائرڈ افسر تھا ،میں نے اس سے کئی سوال پوچھے مگر وہ جواب دینے سے احتراز کر رہا تھا جب میں نے اسے بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو اس نے بے تکلفانہ انداز میں جواب دینا شروع کیا ، کہنے لگا کہ ایک صدی پہلے چین میں اعلی تعلیم کے حصول کے ادارے موجود نہیں تھے ، 1912میں جب چین سے بادشاہی نظام کا خاتمہ ہوا تو اسوقت کے لیڈروں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ یہاں تعلیمی اداروں کا قیام ازحد ضروری ہے ۔

یوں کچھ چینی طلباکو اعلی تعلیم کے لیے امریکہ سمیت دیگر ممالک میں بھیجا گیا اور اسی اثناء میں چند امریکی ماہرین تعلیم کو چین میں مدعو کیا گیا اور آج چین کی مشہور جامعات کو شروع کرنے کا اعزاز بھی ان امریکی اساتذہ کے پاس ہی ہے ، جنہوں نے نہایت دلجمعی کے ساتھ تشنگان علم کی پیاس کو سیراب کیا ۔یہ تو اس چینی بحریہ کے ریٹائرڈ افسر کی باتیں تھیں مگرجب ہم دیکھیں تو واقعی یہی حقائق ہیں ۔

1912کے بعد چینی لیڈروں نے چین کو عوامی جمہوریہ بنانے کی کوششیں شروع کیں اگرچہ بادشاہی نظام میں بھی یہاں تعلیمی ادارے موجود تھے مگر اس انداز سے کام نہیں کر رہے تھے ، 1935میں چین کی آبادی 40کروڑ تھی اور اسوقت منگولیا بھی چین کا حصہ تھا ۔

1947-48میں امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اسٹیل پیدا کرنے والا ملک تھا مگر آج چین دنیاکا سب سے زیادہ اسٹیل کی پیداوار کا حامل ملک بن چکا ہے ، یکم اکتوبر 1949کو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے چین کی سول وار میں کامیابی حاصل کر کے چین پر مکمل طور پر اپنا سکہ جمادیا اور اس جنگ کی قیادت عظیم چینی لیڈر ماؤزے تنگ نے کی ۔

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے وقت سے پہلے اپنے شعر میں اس بات کی پیشگوئی کردی تھی کہ "گراں خواب چینی سنبھلنے لگے”اور شاید چین نے اسے پلے باندھ لیا اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز کیا ،ابتداء میں ماؤزے تنگ کا مشکلات کا سامنا رہا جس میں سب سے بڑا مسئلہ بیرونی سرمایہ کاری کا صفر ہونا بھی تھا مگر اس عظیم رہنماء نے اشتراکیت کے نظام کو مضبوط کیا اور انہیں یقین تھا کہ یہی نظام تمام نظریات پر حاوی ہوگا ۔

1976میں کمیونسٹ پارٹی کی باگ ڈور "ڈینگ شیاؤ پھنگ "نے سنبھالی اور انہوں نے معاشی استحکام اور ترقی کے پانچ مسلمہ اصول مرتب کیے (۱) اقتصادی اصلاحات (۲)درست مارکیٹ کا تعین (۳)بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی چینی منڈیوں تک رسائی (۴) معیشت کا مرکز (۵)عالمگیریت ۔ان پانچ اصولوں کی بنیاد پر جناب ڈینگ آگے بڑھے ۔

1980میں چین میں معاشیات کا مضمون پڑھانے والا کوئی چینی پروفیسر نہیں تھا مگر جناب ڈینگ نے ہونہار چینی طلبا کو معاشیات کی تعلیم کے حصول کے لیے بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں بھیجا اگرچہ 1978میں چین کی جی ڈی پی 200بلین امریکی ڈالر تھی مگر 20سال کے عرصہ میں یہ 800بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی اور 2015میں 10.86ٹریلین امریکی ڈالر تھی ۔

2010میں چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر سامنے آیا جب اس نے یہ اعزاز جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک سے چھینا ، 2010میں ہی چین دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرر بن گیا اور اسی عرصے میں وہ برآمدات سمیت غیر ملکی زرمبادلہ کمانے والا بڑا ملک بنا جب اس نے 2ٹریلین امریکی ڈالر کی برآمدات کا ہدف عبور کیا ۔

چین موجودہ دور میں عالمی فیکٹری بن چکا ہے ،دنیا کے تمام بڑے برانڈز چین ہی میں تیار ہوتے ہیں ۔

چین کو حقیقی معنوں میں عوامی جمہوریہ بنانے میں چینی عوام نے بھی اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا ہے اسی لیے اس نے عالمی تجارت میں کبھی بھی تجارتی خسارے کا سامنا نہیں کیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے