مغربی ممالک میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہونے والے پاکسانی نوجوانوں کی دُکھ بھری داستان

زندگی کے سہانے خواب نوجوان نسل کو ’’شارٹ کٹ‘‘ استعمال کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں، پاکستان میں ایجنٹوں کی باتوں میں آ کر سنہرے مستقبل کے لئے یورپ کا سفر کرنے والے اکثر نوجوان یا تو موت کو گلے لگا بیٹھے یا منزل پر پہنچنے سے قبل ہی پکڑ لئے گئے، جو آج تک ملکی و غیر ملکی جیلوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جو نوجوان تمام تر مصائب برداشت کر کے غیر قانونی طور پر یورپ سمیت دیگر ممالک میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ سخت حالات میں کام پر مجبور ہو جاتے ہیں، حالیہ عرصے کے دوران نوجوانوں کو ایجنٹوں نے سبز باغ دکھا کر کبھی لانچوں پر، کبھی نہ ختم ہونے والے خوفناک پیدل سفر (جو زیادہ تر ساحلی، پہاڑی، جنگلی راستوں پر مبنی ہوتے ہیں) پر لے جانے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کا منی ناروے ’’کھاریاں‘‘ اس حوالے سے زیادہ زرخیز ہے، جہاں سے متعدد نوجوان بہتر مستقبل کے لئے ناروے سمیت دیگر ممالک کا رُخ کر گئے تو پیچھے موجود دیگر نوجوان احساس کمتری کا شکار ہوئے اور ہر کوئی خطرے کو بالائے طاق رکھ کر ہر حال میں بیرون ملک جانے کی خواہش کرنے لگا ہے۔

حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ڈویژن گوجرانوالہ میں زیادہ لوگ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں، منڈی بہاؤ الدین، حافظ آباد، گجرات، ڈسکہ ، سیالکوٹ، چونڈہ، شکرگڑھ، نارووال کے نوجوان ایجنٹوں کی باتوں میں آ کر خطرناک راستوں سے زندگی کی پرواہ کئے بغیر منزل کی جانب سفرکرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ایجنٹوں کی اکثریت 3 ہزار سے 5 ہزار ڈالر میں نوجوانوں کو بیرون ملک لے جانے کا خواب دکھاتی ہے، ان علاقوں میں موجود کم عمر نوجوان اپنی جمع پونجی، مکانات، والدین کے اثاثے بیچ کر خوابوں کی دنیا میں جانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے والے اکثر ٹریول ایجنٹ ایئر ٹکٹنگ کے کاروبار کی آڑ میں یہ دھندہ کرتے ہیں اور بہت سے تو ایسے بھی ہیں جن کا کوئی دفتر تک نہیں ہوتا۔ ان کے بقول علاقے میں اگر کسی نوجوان سے یہ پوچھا جائے کہ تم کیا کرتے ہو، تو جواب ملتا ہے کہ میرے چار بھائی باہر ہیں۔ عام طور پر یورپ جانے والے ان پڑھ لوگ ’’مزے‘‘ میں دکھائی دیتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جب وہاں جا کر ٹیکسی چلاتے ہیں، تو انہیں اچھا نہیں لگتا۔

گجرات سے متعدد لوگوں کو یورپ بھجوانے والے ایک ٹریول ایجنٹ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ٹریول ایجنٹوں پر سادہ لوگوں کو ورغلانے کا الزام غلط ہے۔ غلط طریقوں سے باہر جانے کے خواہشمند لوگ دراصل خود لالچی ہوتے ہیں اور دولت سمیٹنے کے چکر میں ہر صورت باہر جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو راستے میں پانیوں اور جنگلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ وہ حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں تشدد کا سامنا بھی کر نا پڑتا ہے۔‘‘

گزشتہ ماہ کے دوران بھی ایسے ہی ایک نوجوان کی دلخراش داستان عالمی اور مقامی میڈیا کی زینت بنی جس کا اختتام غیر قانونی طور پر کئی ممالک کی سرحدیں عبور کر کے جرمنی پہنچنے والے 25 سالہ نوجوان کی موت پر ہوا، ویسے تو ہر ماہ ایسے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن چند ایک ہی میڈیا میں لائے جاتے ہیں کیونکہ نہ تو متاثرہ نوجوانوں کے ورثاء اور نہ ہی ایجنٹ اس حق میں ہوتے ہیں کہ خبر میڈیا کی زینت بنے۔ دوسرے نوجوانوں کی طرح ہی ڈسکہ سے تعلق رکھنے والا خزیمہ اپنے لیے اچھی اور زیادہ خوشحال زندگی کے خواب لیے لیکن کسی منصوبہ بندی کے بغیر گارمنٹس کی دکان چھوڑ کر گزشتہ برس کئی لاکھ دیگر مہاجرین کی طرح جرمنی پہنچا۔

پاکستان سے اس سے پہلے یا بعد میں لیکن 2015ء کے دوران ہی ہزاروں دیگر تارکین وطن بھی جرمنی پہنچے تھے۔ لیکن جس طرح کی صورت حال کا خزیمہ کو سامنا کرنا پڑا، اسے صرف قسمت کا لکھا اور تقدیر کی سنگ دلی ہی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ خزیمہ کو اپنے ہڈیوں کے سرطان کا مریض ہونے کا علم جرمنی آنے کے قریب 9 ماہ بعد ہوا تھا، جب اسے اچانک بہت تیز بخار رہنے لگا تھا۔ پھر اس نے قریب 5 ماہ کا عرصہ جرمنی کے مختلف ہسپتالوں میں گزارا، جس دوران کولون میں بھی یونیورسٹی ہسپتال کی مرکزی عمارت کی 15 ویں منزل کے مختلف کمروں میں مجموعی طور پر اس کا قریب پونے چار ماہ تک علاج ہوتا رہا۔ نو مارچ 1992ء کو ڈسکہ میں پیدا ہونے والا خزیمہ ابھی 25 برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ 4 نومبر کو انتقال ہو گیا۔

زندگی کی وہ کہانی جو ڈسکہ شہر کے ایک محلے سے شروع ہوئی تھی، کولون کی ’’کَیرپنر شڑاسے‘‘ نامی سڑک پر یونیورسٹی کلینک کے کمرے میں اس طرح اپنی تکمیل کو پہنچی کہ چند روز پہلے تک اسے اپنے ساتھ پاکستان لے کر جانے کے خواہش مند اس کے جرمن معالج اور مہینوں تک اس کی بڑے خلوص سے طبی نگہداشت کرنے والی نرسوں تک ہر کوئی آبدیدہ تھا۔ انتقال کے وقت اس پاکستانی نوجوان کے پاس اس کا کوئی رشتے دار موجود نہیں تھا۔ خزیمہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنا آخری وقت چاہے وہ چند روز ہوں یا محض چند گھنٹے ہی اپنے والدین کے ساتھ گزارے۔ اس کی والدہ کو جرمنی بلانے کے لیے ویزے کے حصول کی کارروائی بھی شروع کی گئی تھی، جو کئی مختلف وجوہات کی بناء پر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ خزیمہ کو یہ خوف بھی تھا کہ آیا پاکستان جا کر اس کی اسی طرح بھرپور اور تسلی بخش طبی دیکھ بھال ہو سکے گی، جس طرح جرمنی میں کی جا رہی تھی۔ اس کے باوجود وہ عین آخری دنوں میں پاکستان جانے پر نہ صرف آمادہ ہو گیا تھا بلکہ اصرار بھی کر تا رہا تھا۔ لیکن تب تک وقت اپنا فیصلہ سنا چکا تھا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین UNHCR کے مطابق رواں سال جنوری سے اگست کے مہینے تک 13 ہزار سے زائد پاکستانی سیاسی پناہ کے لئے ترکی اوریونان کے راستے مغربی یورپ پہنچ چکے تھے۔ ایسے پاکستانی تارکین وطن کے بقول وہ اپنا گھر بار چھوڑنے کا فیصلہ بظاہر اقلیتوں کے خلاف جرائم، مذہبی اور معاشرتی عدم برداشت، سیاسی عدم استحکام یا پھر غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات کے لیے کرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پھر وہ انتہائی حد تک تکالیف اور خطرات کا سامنا بھی کرتے ہیں۔

پاکستانی یورپ کیوں جانا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ ہر ایسے المیے کے بعد ذہن میں بیدار ہوتا ہے جس میں کئی نوجوان مستقبل کے سہانے خواب سپنے سجائے منزل پر پہنچنے سے قبل ہی موت کی وادیوں میں دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ ناروے، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی یورپی ملکوں میں پاکستانی آباد ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر اور بہت سے خطرات مول لے کر ان دنوں یورپ جانے والے تارکین وطن میں بھی بڑی تعداد پاکستان کے مختلف شہریوں کی ہے۔ غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے خلاف قانون سازی موجود ہے۔ موجودہ حکومت سختی بھی کر رہی ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں بعض اوقات مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

[pullquote]راستہ کون سا ہے؟
[/pullquote]

سفر کے پہلے مرحلے کے دوران بلوچستان کے راستے غیر قانونی طریقے سے ایران ، اس کے بعد ہفتوں پر محیط لمبے سفر کو پیدل طے کیا جاتا ہے، جہاں سے خطرناک پہاڑی راستوں سے گزرا جاتا ہے اور ترکی کی جانب سفر طے کیا جاتا ہے، ترکی سے یونان جانے کا خطرناک راستہ سمندری راستے سے طے کیا جاتا ہے جہاں چھوٹی کشتیوں پر ضرورت سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے ، اکثر لانچیں سفرسے پہلے ہی بوجھ برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے ڈوب جاتی ہیں جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوتی ہیں، بچ جانے والے یونان کے جزائر ایجسئین پہنچتے ہیں۔

جہاں سے پیدل ہنگری، فرانس، ناروے، جرمنی، ڈنمارک سمیت دیگر ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ دوسرے راستوں میں ویزہ حاصل کرنے کے بعد لیبیا جایا جاتا ہے، جہاں پر ایجنٹوں کو 3 سے 5 ہزار ڈالر دینے کے بعد لانچوں پر بیٹھ کر اٹلی پہنچا جاتا ہے، جن میں زیادہ تر لوگ راستے میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ تیسرے راستے کے لئے مزید پر خطر اور سرد مقامات کا انتخاب کیا جاتا ہے، پاکستان سے ویزہ حاصل کرنے کے بعد روس جایا جاتا ہے اور سرد ترین موسم میں ترکمانستان، کرغزستان یا ناروے کا رُخ کیا جاتا ہے۔

بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے