فضل الرحمان نوازکا نہیں میرا ہے۔

’ڈرائیونگ سیٹ پر بلاول بھٹو ہی ہوں گے اور پچھلی نشست پر زرداری ہوں گے‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر ڈیڑھ سال کے بعد جمعہ کو پاکستان پہنچ رہے ہیں اور پارٹی نے ان کے استقبال کی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ان کے ہمراہ دبئی سے آئیں گے۔

کراچی ایئرپورٹ کے پرانے ٹرمینل پر دوپہر کو جلسہ منعقد کیا جائے گا جس سے سابق صدر آصف علی زرداری خطاب کریں گے۔ ان کے اس خطاب سے ان کے آنے والے دنوں کی سیاست کا اندازہ لگایا جائے گا۔

گذشتہ سال جون میں اسلام آباد میں پارٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ اگر اُنھیں دیوار سے لگانے اور ان کی کردار کشی کرنے کی روش ترک نہ کی گئی تو وہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جرنیلوں کے بارے میں وہ کچھ بتائیں گے کہ وہ وضاحتیں دیتے پھریں گے۔ اس بیان کے بعد ان کے فوجی قیادت سے اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے اور کچھ ہی عرصے کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے تھے۔

پاکستان میں فوج کی قیادت میں تبدیلی کے بعد ان کی وطن واپسی سامنے آئی ہے۔ نامور تجزیہ نگار عارف نظامی کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک پیپلز پارٹی سنگل آؤٹ ہو چکی تھی، خاص طور پر ڈاکٹر عاصم حسین کیس اور ایان علی کیس کے حوالے سے۔
آصف علی زرداری کی جانب سے 16 جون 2015 کو فوجی قیادت کے خلاف بیان کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے سربراہ سے پہلے سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی اور ان کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

اس کے بعد آصف زرداری نے اپنی اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلایا تھا اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کے بیانات سے ایسا لگ رہا تھا کہ طویل عرصے سے مفاہمت کی پالیسی پر چلنے والی یہ دونوں جماعتیں سیاسی تصادم کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

24 جون 2015 کو سابق صدر آصف علی زرداری دبئی روانہ ہو گئے۔

‘یہ ظاہر ہو رہا تھا جیسے اس کے بعد زرداری صاحب کی باری آئے گی تاہم یہ کہا نہیں جاسکتا کہ ایسا ہونا بھی تھا یا نہیں۔ لیکن ان کے گرد حصار تنگ کیا گیا تھا۔ اب زرداری کا خیال ہوگا کہ نئے حالات میں ان کے لیے زیادہ گنجائش ہوگی۔’

نامور صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ آصف زرداری ستمبر یا اکتوبر میں واپس آنا چاہ رہے تھے اور انھوں نے فیصلہ بھی کرلیا تھا لیکن ان کے میڈیکل ایشوز تھے جس کی وجہ سے نہیں آسکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ انھیں پارٹی کے کچھ لوگوں نے بھی روکا تھا حالانکہ وہ چاہ رہے تھے کہ واپس آئیں تاکہ یہ پیغام دیں کہ وہ جنرل راحیل شریف کے خوف سے نہیں بھاگے تھے۔

Bilawal Zardari

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پہلے اور اب بھی جنرل راحیل شریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں اختلافات کو مسترد کرتی ہے۔

سینیٹر سعید غنی کا کہنا ہے کہ راحیل شریف اور آصف علی زرداری کا کوئی ایشو نہیں تھا اگر تھا تو وہ کسی فرد کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ ادھر ادارہ ہے اور ادھر پارٹی ہے۔

‘ہم پاکستان فوج کے ساتھ لڑ نہیں سکتے اور نہ لڑنا چاہتے ہیں اسی طرح وہ بھی نہیں لڑنا چاہتے کیونکہ پیپلز پارٹی بہت بڑی جماعت ہے۔ کچھ لوگوں کی یہ خواہش ہوسکتی ہے کہ کوئی تصادم ہو تاکہ کسی تیسرے کا راستہ کھلے لیکن دونوں طرف ایسی کوئی بات نہیں ہے۔’

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کی اور رواں سال بالآخر پنجاب میں بھی پارٹی کا مرکزی کنوینشن منعقد کیا گیا۔ سابق صدر اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی واپسی سے کیا ان کی شخصیت ثانوی ہوجائے گی؟

سینیٹر سعید غنی کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کی واپسی سے یہ تاثر نہیں لینا چاہیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست میں کوئی تھا، ان کی واپسی پارٹی کے لیے اہم ہے وہ بلاول بھٹو کی رہنمائی بھی کریں گے۔ اگر آگے تحریک چلتی ہے تو اس میں ان کا کردار اہم ہوگا۔

‘بلاول اور آصف زرداری کی تال میل شاندار ہے، کیونکہ بلاول بھٹو جارحانہ سیاست کرتے ہیں اور زرداری صاحب دھیمے انداز میں معاملہ فہم ہے۔ اگر دونوں مل کر کوئی حکمت عملی بناتے ہیں تو بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔’

سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بلاول بھٹو ہی ہوں گے اور پچھلی نشست پر زرداری ہوں گے۔ وہ پاکستان بلاول کی مرضی سے آرہے ہیں اور یہاں جو کچھ بھی کریں گے اس میں بلاول اور پارٹی کی مجلس عاملہ کی مرضی شامل ہوگی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں بظاہر کسی بڑی مخالفت یا جماعت کا کوئی چیلنج نظر نہیں آتا، جبکہ پنجاب میں اس سے تحریک انصاف زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔

سینئر صحافی عارف نظامی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بینظیر بھٹو کے دور سے ہی پیپلز پارٹی کا زوال شروع ہوچکا تھا۔ بلاول، جادو کی چھڑی کے ذریعے اس کو فوری بحال تو نہیں کرسکتے۔

‘پنجاب میں صرف مسلم لیگ نواز نہیں وہاں تحریک انصاف بھی ہے۔ یہ آمریت والا دور نہیں ہے جب بینظیر بھٹو واپس آئی تھیں۔ پی پی پی کو کافی محنت اور کام کرنا ہوگا۔ سب سے بڑا چلینج یہ ہے کہ وہ پنجاب میں کس طرح پارٹی کو منظم کرتے ہیں، اثر و رسوخ رکھنے والے امیدوار کو متوجہ کرپاتے ہیں، پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کیسے کرتے ہیں اور کیا لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا نہیں۔ یہ کوئی آسان چلینج نہیں۔’

سینیٹر سعید غنی کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو نے جو سرگرمی دکھائی ہے اس سے پارٹی کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ پارٹی کا گراف جو 2013 میں نیچے نظر آیا تھا اس میں کافی بہتری آئی ہے۔

‘پیپلز پارٹی کا پنجاب میں شاندار ماضی رہا ہے پیپلز پارٹی کو وہاں کمزور کرنے کے لیے مختلف طاقتوں اور قوتوں نے چالیس سال کام کیا ہے۔ قیادت کی موجودگی سے یہ ہوسکتا ہے کہ بلاول پنجاب میں جاکر فوکس کریں اور زرداری صاحب دیگر معاملات دیکھیں۔’

یاد رہے کہ بلاول بھٹو نے چار مطالبات قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل، پاناما سکینڈل کی شفاف تحقیقات، چین پاکستان راہداری منصوبے پر آل پارٹیز کانفرنس اور کل وقتی وزیر خارجہ کی تعیناتی پر عملدرآمد کے لیے 27 دسمبر سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور بتایا تھا کہ انہوں نے دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کیا اب اپنے طور پر یہ تحریک شروع کرنے جا رہے ہیں۔

سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کا کردار پارٹی کو منظم کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا کردار یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ملاکر ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس بنایا جائے۔ اس کے لیے جو دیگر سیاسی جماعتوں میں ان کے رابطے ہیں انہیں استعمال کیا جائے۔

‘وہ نواز شریف کے کچھ اتحادیوں کو بھی توڑنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اعتماد کے ساتھ مجھے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نواز شریف کا نہیں میرا دوست ہے۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے