اسرائیل مخالف قرارداد آخری وقت میں کیوں ملتوی ہوئی؟

اقوام متحدہ میں اسرائیل کی طرف سے غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی جانا تھی، جسے آخری وقت میں ملتوی کر دیا گیا۔ ماضی کے برعکس کیا صدر اوباما اس قرارداد کے حق میں تھے؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی جانا تھی۔ گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا تھا کہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس قرارداد کا راستہ روکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے ہی اپیل کیوں کی گئی تھی؟ اس حوالے سے ایک اسرائیلی عہدیدار نے نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ معلوم ہوا تھا کہ اس مرتبہ وائٹ ہاؤس اسرائیل مخالف قرارداد کو ویٹو کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بینجمن نیتن یاہو اور صدر باراک اوباما کے مابین سرد تعلقات کی آخری نشانی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قرارداد کا ملتوی ہونا آئندہ کی وائٹ ہاؤس انتظامیہ اور اسرائیل کے مابین قریبی اور بہتر تعلقات کی طرف بھی ایک اشارہ ہے۔

اس مجوزہ قرارداد میں فوری طور پر یہودی بستیوں میں تعمیراتی سرگرمیوں کو روکنے کا کہا گیا تھا اور مسودے میں یہ بھی درج تھا کہ ایسی بستیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن مصر نے ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے دباؤ میں آتے ہوئے یہ قرارداد پیش ہی نہیں کی ہے۔

اسرائیلی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اوباما انتظامیہ اسرائیل مخالف قرارداد کو ویٹو نہیں کرے گی تو اسرائیلی عہدیداروں نے ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم سے رابطہ کیا کہ وہ اسے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘‘

جمعے کے روز مصر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر السیسی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک کال موصول ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے آئندہ کی امریکی انتظامیہ کو ایک موقع فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ٹیلی فون کال مصر کی طرف سے غیر معینہ مدت تک قرارداد پیش نہ کرنے کے فیصلے کے گھنٹوں بعد موصول ہوئی۔

فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اوباما انتظامیہ اور تقریباﹰ تمام بین الاقوامی برادری مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی تعمیرات کے خلاف ہے اور ان تعمیرات کو امن عمل میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ ان دونوں علاقوں میں تقریباﹰ چھ لاکھ اسرائیلی آباد ہیں۔ فلسطینی ان دونوں علاقوں کو اپنی مستقبل کی آزاد ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں ان دونوں علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

امریکا روایتی طور پر پر ان علاقوں میں اسرائیلی گھروں کی تعمیر کی مخالفت کرتا آیا ہے لیکن اس نے سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی ہر اسرائیل مخالف قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ امریکا کا موقف یہ رہا ہے کہ یہ معاملہ امن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران اوباما انتظامیہ کو امن مذاکرات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اب صدر اوباما کوئی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اس خطے پر اپنا نشان چھوڑنا چاہتے تھے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے وائٹ ہاؤس کی اس حوالے سے مشاورت کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں سے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن صدور کی اعلان کردہ پالیسی یہی رہی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے۔ یہ ایک ایسی بات ہو گی، جس سے فلسطینیوں کے حوالے سے امریکی موقف پر سوالیہ نشان آ جائے گا۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اسرائیل میں یہودی امریکی وکیل ڈیوڈ فریڈمین کو سفارت کار تعینات کریں گے۔ فریڈمین نہ صرف یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے ڈونر ہیں بلکہ اُن کے بہت بڑے حامی بھی ہیں۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ صدر باراک اوباما کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے پہلے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لایا جائے گا یا نہیں۔ جمعرات کو قرارداد نہ پیش کرنے کے حوالے سے ابھی تک فلسطینیوں کا کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے