قائداعظم کا عقیقہ

قائدِ اعظم کے والد جناح پونجا اور والدہ مٹھی بائی تقسیم ہند سے لگ بھگ پون صدی قبل ہندوستان کی ریاست کاٹھیاواڑ کے علاقے پانیلی سے منتقل ہوکر کراچی کے علاقے کھارادر میں آباد ہوگئے تھے۔

جہاں بہت سے لوگ بھارتی گجرات اور کاٹھیاواڑ کے مختلف علاقوں سے آکر سکونت اختیار کئے ہوئے تھے ۔ قائد اعظم کے والد نے ایک درآمدات و برآمدات کے نجی ادارے گرامس ٹریڈنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔

مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب میرا بھائی میں کچھ یوں رقم طراز ہیں ” میری والدہ کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا۔ اس دن اتوار تھا اور تاریخ 25 دسمبر 1876 تھی۔ بچہ کمزور اور دبلا پتلا تھا۔ اس کے ہاتھ لمبے اور پتلے تھے۔ سر لمبوترا اور پیشانی آگے کی طرف ابھری ہوئی تھی۔

والدین اس کی صحت کے بارے میں بہت پریشان تھے۔ بچے کا وزن بھی کئی پونڈ کم تھا۔ انھوں نے بچے کا ایک ڈاکٹر سے معائنہ کرایا جس نے بتایا کہ ظاہری کمزوری کے سوا بچے میں جسمانی اور طبعی طور پر کوئی نقص نہیں ہے۔

لیکن ایک ڈاکٹر کی یقین دہانی سے ایک شفیق ماں کی تشویش اور خدشات کیوں کر ختم ہوسکتے تھے۔ بچے کا نام رکھنے کا سوال پیدا ہوا۔ کاٹھیاواڑ میں رہنے سے اب تک ہمارے خاندان کے مَردوں کے نام بڑی حد تک ہندؤں سے ملتے جلتے تھے۔

لیکن سندھ ایک مسلم صوبہ تھا اور ان کے ہمسایوں کے نام مسلمانوں جیسے تھے۔ دونوں کا اتفاق ہوا کہ ان کے پہلے بیٹے کا نام محمد علی مناسب رہے گا اور انھوں نے بچے کا یہی نام رکھا۔

میری والدہ کا اصرار تھا کہ وہ دونوں محمد علی کو رسمِ عقیقہ کی ادائیگی کے لئے گنود جو ہمارے گاؤں پانیلی سے دس میل کے فاصلے پر ہے میں درگاہ حسن پیر لے جائیں۔

بچپن میں میری والدہ نے اس درگاہ میں مدفون پیر کے عقیدت مندوں جو مافوق الفطرت قوتوں پر یقین رکھتے تھے سے کراماتی داستانیں سن رکھی تھیں۔

ان کی والدہ کے وجدان نے انھیں یقین دلایا تھا کہ ایک عظیم مستقبل محمد علی کا منتظر ہے۔ یوں اپنے چند ماہ کے بچے کے ساتھ ماں باپ نے سفر کے دوران تندو تیز ہواؤں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک بادبانی کشتی میں کراچی سے کاٹھیاواڑ کی ویراوال بندرگاہ کے لئے اپنی نشستیں بک کروائیں۔

مسافروں کے بوجھ سے لدی ہوئی نازک سی کشتی طوفان میں پھنس گئی اور بیچ سمندر میں لکڑی کے تختے کی طرح ڈولنے لگی۔ کشتی پر سوار لوگ خوف و ہراس میں مبتلا تھے اور ایسے حالات میں گھبراہٹ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ میرے والد اوپر آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔

غالباَ یہ سوچ رہے تھے کہ یہ طوفان کب رکے گا اور کشتی پرسکون سفر جاری رکھے گی۔ میری والدہ اپنے ننھے بیٹے کو سینے سے لگائے ہوئے اپنے ہم سفروں جن میں ان کا لاڈلا محمد علی بھی تھا کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔

طوفان کے بعد سمندر پر عجیب و غریب سکون طاری ہوگیا اور کشتی خوشی خوشی اپنی منزل کی طرف رواں ہوگئی۔ جب ویراوال بندرگاہ پر کشتی لنگر انداز ہوئی اور انھوں نے دھرتی پر قدم رکھا تو چند میل کے فاصلے پر گنود جانے کے لئے انھوں نے ایک بیل گاڑی کرائے پر لی۔

یوں بحیرہ عرب میں طوفانی سفر اور ہچکولے کھاتی ہوئی بیل گاڑی کے سفر کے بعد میرا ننھا بھائی محمد علی اپنی والدہ کی آغوش میں بے شمار رشتہ داروں میں گھرا ہوا حسن پیر کی درگاہ پر اپنی ماں کی منت پوری کرنے کے لئے سر مُنڈانے کے لئے تیار تھا۔

درگاہ حسن پیر پر عقیقہ کی رسم کے بعد میرے والدین اپنے ننھے مُنے گنجے بیٹے کو لے کر اپنے آبائی گاؤں پانیلی آگئے۔ چند ہفتے پانیلی اور گونڈل میں قیام کے بعد میرے والدین نے اپنے ننھے بیٹے کے ساتھ کراچی کا سفر کیا "۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے