منظم بے انصافی کا فسانہ

کالم نہیں افسانہ لکھنے کو دل چاہ رہا ہے، کچھ کردار، کچھ منظراور چند دھندلے سائے ذھن میں گردش کر رہے ہیں۔ کچھ ایسے کردار جن کے سامنے انصاف کی دیوی بے بس نظر آئی تو کچھ ایسے مظلوم جن سے انصاف کی دیوی نے سب کچھ چھین لیا۔ یہ سارے کردار منظم بے انصافی کی پیداوار ہیں، ان کہی داستانوں اوربے نام چہروں کی مانند، ملک عزیز میں انصاف مہنگا ہے یا نایاب اسکا تو پتہ نہیں مگر ایک عام انسان کیلئے انصاف قانونی پیچ و خم میں گم ہو جاتا ہے اور انصاف کی دیوی آنکھیں موندے خاموش کھڑی رہتی ہے

افسانے کا ایک کردار مصطفیٰ کانجو، پنجاب کے سیاسی گھرانے کا چشم و چراغ، سابق وزیر مملکت صدیق کانجو کے بیٹا، اپریل 2015 لاہور کا علاقہ کیولری گرائونڈ، گاڑی سے ٹکر کے معاملے پر مصطفیٰ کانجو نے سولہ سالہ طالبعلم زین کو کلاشنکوف سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ میڈیا چیخا تو چند روز بعد خوشاب سے گرفتار بھی کر لیا گیا، کیس چلا سیاسی اثر و رسوخ بھی خوب چلا، بیوہ والدہ انصاف کیلئے دہائی دیتی رہی۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے قاتل کو ضمانت پر رہا بھی کر دیا۔ آئندہ سماعتوں میں پتہ چلا یہ سیاسی گھرانے کا یہ ہونہار قاتل بیرون ملک فرار ہو چکا ہے

25 دسمبیر 2012 کراچی کے علاقے کلفنٹن میں ایک نوجوان شاہ زیب خان کا بہیمانہ قتل، مقتول نوجوان کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس نے اپنی بہن کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرنے سے منع کیا تھا۔ قاتل ہے وڈیرے کا بیٹا شاہ رخ جتوئی، جس نے گارڈز کے ہمراہ سر عام شاہ زیب کو موت کے گھاٹ اتار دیا، پھر سیاسی شخصیات کے زیر سرپرستی یہ مبینہ قاتل ملک سے باآسانی فرار بھی ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر شور مچا تو میڈیا بھی جاگا اور دو ماہ بعد اسے دبئی سے گرفتار کر کے وطن لایا گیا۔ بالاخر جون 2013 میں انسداد دہشتگردی عدالت نے 20 سالہ شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو موت کی سزا سنائی۔ سزا کے خلاف اپیل کی گئی اور آج چار سال بعد بھی فیصلہ نہ ہو سکا، شنید ہے بااثر سیاسی و کاروباری خاندان کا یہ سپوت جیل میں بھی وی آئی پی پروٹوکول کے مزے لوٹ رہا ہے۔

دور کیوں جائیں اسی ماہ عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے دو قیدیوں کو 15 سال بعد رہا کر دیا۔ فلک شیر اور قمر عباس پر دو افراد کے قتل کا الزام تھا۔ ٹرائل کورٹ نے موت کی سزا دی اور لاہور ہائیکورٹ نے اسے برقرار رکھا تھا مگر عدالت عظمیٰ نے گواہوں کے بیانات میں تضاد و شواہد میں موجودہ ابہام کی بنیاد پر دونوں کو بری کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے اکتوبر میں سپریم کورٹ نے 13 سال سے قید قتل کے ملزم مظہر حسین کو ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری کیا۔ اس ناانصافی پر جسٹس آصف کھوسہ بھی چپ نہ رہ سکے، ان کے ریمارکس تھے کہ فلموں میں سنا تھا کہ ہیرو کہتا تھا جج صاحب میری زندگی کے اتنے سالوں کا حساب کون دیگا، آج دیکھ بھی لیا۔ جسٹس کھوسہ نے عدالتی نظام کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا

نجانے کتنے قاتل قانون کی گرفت اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے بعد آج بھی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں اور نجانے کتنے بے گناہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ نظام کی بربادی کو رونا تو سب روتے ہی ہیں مگر توہین عدالت کا مرتکب نہ قرار دیا جائے تو دست بستہ عرض ہے کہ کہیں ملکی نظام کمزور ہے تو عدالتی نظام بھی اس برائی سے مبرا نہیں، ہر مقدمہ سپریم کورٹ تو نہیں جا سکتا۔ نچلی سطح پر عدالتی نظام اسی طرح تباہی کا شکار ہے جیسے ملکی نظام، رشوت، اثر و رسوخ، دبائو یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں عام ہے تو بھی عدالت بھی اسی معاشرے کا حصہ پے۔ نچلی عدالتوں میں انصاف کی دیوی کا حال کیسا ہے عدلیہ سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سب کچھ عدلیہ کے ہاتھ میں نہیں اور انصاف کی فراہمی کسی حکومت کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔ وکلا تحریک کے بعد سابق با اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ چوہدری افتخار کو تاریخی موقعہ ملا تھا نظام عدل کو سنوارنے، تعمیر نو کرنے کا مگر انہوں نے اس سنہری موقعے کو سیاسی شہرت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا۔

کہتے ہیں عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے، آئیے اس کہانی کے کچھ ضمنی کرداروں سے بھی مل لیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر رانا مشہود، ویڈیو موجود ہونے کے باوجود نہ صرف بیگناہ ہیں بلکہ وزارت تعلیم جیسے حساس منصب پر فائز ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال اور انکے فرنٹ میں اسد کھرل کا مشہور زمانہ اسکینڈل، رینجرز کی تحویل سے چھڑانے کے مقدمات بھی سب بھول بھال گئے۔ ایک اور صاحب ہوا کرتے تھے ارسلان افتخار، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ چوہدری افتخار کیے فرزند ارجمند، ارسلان افتخار کے شاہانہ دورے، اخراجات اور بحریہ ٹائون والے ملک ریاض کے الزامات اور مقدمہ، سب کچھ منظر سے غائب گیا۔ ڈی ایچ اے لاہور سولہ ارب روپے اسکینڈل کیس، چھوٹی موٹی گرفتاریاں تو کی گئیں مگر سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے برادر محترم کامران کیانی رضاکارانہ بیرون ملک جلاوطن ہیں

انصاف کیساتھ بے منظم انصافی میں شامل افراد کی طویل فہرست بن سکتی ہے، حکومت، پولیس، ادارے، عدالتی نظام، وکیل اور بہت کچھ مگر عوام بھی اسکے کم ذمہ دار نہیں کیونکہ بے انصافی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتے، بھیڑ، بکریوں کے ریوڑ کی طرح ظلم سہنے کی عادی ہو گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سب سے بڑی اور مرکزی ملزم حکومت ہے جو اس ریاستی ذمہ داری سے شعوری طور پر منکر ہے۔ عدالتی نظام اس طرح کا ہے کہ پہلے تو پولیس ہی کیس کمزور بناتی ہے اور پھر رہی سہی کسر استغاثہ مضبوط ثبوت و شواہد نہ پیش کر کے پوری کر دیتا ہے۔ عدالت کو فیصلہ ثبوت و شواہد پر کرنا ہے یہ اگر کمزور پیش کیئے جائیں یا نہ ہوں تو بھلا عدالت کرے بھی تو کیا کرے، رشوت، دبائو، اثرورسوخ اور رہی سہی کسر وکلا تاخیری حربوں اور قانونی تاویلات سے پوری کر دیتے ہیں، یہ ساری منفی قوتیں اپنے اپنے مفادات کی خاطر ملکر ایسی وحشیانہ بے انصافی کو جنم دے رہے ہیں جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کا محاورہ ازلی حقیقت کا روپ دھارے سامنے کھڑا رہتا ہے، گویا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ملک کو ایک منظم بے انصافی کے سپرد کر دیا گیا ہے

انصاف کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہو گی مگر پاکستان میں تو گزشتہ ستر سالوں سے عوام کو انصاف ملک نہ سکا۔ نسرے محل، سوئٹزرلینڈ میں خطیر اکاونٹس، اصغر خان کیس، ملک کی اعلیٰ ترین شخصیات پر کرپشن کے الزامات سب بے انجام ہیں، اب آپ ہی بتائیں پاناما لیکس کے فسانے کا انجام کیا ہو گا۔ سرکار سے کچھ بعید نہیں کہ جانے کب نظام انصاف کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ اس صورتحال میں عوام منظم بے انصانی کے خلاف کس کی دہائی دیں، بقول شاعر

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے