حیرت ہے مجھے، آج کدھر بھول پڑے وہ

گئے موسم میں جو کِھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تُو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

وہ زندگی سے محبت کرنے کا جرم پورے غرور کے ساتھ قبول کرتی ، بہاروں کے رنگ اسے خوشی دیتے تو خزاں بھی اسے دکھی کردیتی ، مگر وہ اس سے دشمنی نہیں کرتی۔ وہ تنہائیوں سے اور سنّاٹوں سے گھبراتی ہے، مگر نفرت نہیں کرتی، خواہشوں کا ادھورا پن اس میں جو خلاء پیدا کرتا ہے وہ اسے فن کی بلندیوں پر جا کر پورا کرتی ہے۔

جس طرح خواب میرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کر بکھرے کوئی

پروین شاکر24 نومبر، 1952 ء کوکراچی میں پیدا ہوئیں۔ پروین شاکر کی فنی تربیت میں والد شاکرحسین زیدی ،نانا حسن عسکری اور خاندان کےکئی نامور شعرا اور ادبا شامل ہیں ۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات ہوئیں۔

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے

سنہ 1976میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ءمیں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا

پروین اسلام آباد میں سی۔بی ۔آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں ،اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپیکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

ساختیاتی اعتبار سے دیکھیں یا رومانوی طرز ِ احساس ہو یا علامات و استعارات کی ہمہ پہلو معنویت، پروین شاکر کی شاعری میں نسائی لہجے کے ساتھ عصری آگاہی اور جدت طرازی بھر پور اظہار کر رہی ہیں۔

تیرے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے

اعتبارِ ذات کی منزلوں کی تلاش میں مصروفِ عمل اس کے اندر کی فنکار جو ایک عورت بھی ہے اس کی شاعری میں جا بجا مردانہ سماج میں بے اختیاری و بے اعتباری کے مجبور موسموں کی سنگت میں انگنت سوال کرتی ہوئی ایک تابناک شعری تاریخ رقم کرتی ہے۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تواک بات کی اس نے کمال کردیا

شاعری میں پروین شاکرکو احمد ندیم قاسمی کی سرپرستی حاصل رہی۔ انکا بیشتر کلام قاسمی صاحب کے رسالےفنون میں شائع ہوتا رہا۔پروین شاکر کا شمار بلاشبہ ان خواتین میں ہوتا ہے جن کے فن کا اعتراف کرنا مردوں کے لیے بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

پروین شاکر کا کلام ’’خوشبو‘‘ کی طرح چارسو بکھرتا ہوا ہر کسی کو مسحور کر لیتا ہے حتیٰ کہ یہ نوجوانوں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا بلکہ سنجیدہ قاری کے پختہ احساس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ پروین شاکر نے ’خوشبو‘ کو اپنی ’صد برگ‘ سوچوں سے ’خود کلامی‘ کرتے ہوئے کئی معنی پہنائے، ہزاروں رنگ بخشے، ہر بار نیا تاثر پیدا کیا۔

وہ رت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں

حسن ِ بیان، خیال آفرینی، شدتِ احساس، ہجر و وصال کے انوکھے تجربے و تجزیے کچھ اس طرح سے شعری قالب میں ڈھالے کہ نسائی شاعری کے لیے نئی راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں، پروین شاکر نے کچھ ایسے انداز سے شہر سخن وراں میں حروف و معانی کے رنگ بکھیرے کہ اس کی الگ اور نمایاں شاعرانہ حیثیت سے ’’انکار ‘‘ کرنا ایک کار ِ محال ہے۔ اُس نے ’خوشبو‘ ’خودکلامی‘ ’صد برگ‘ اور ’انکار‘ جیسے ناقابل ِ فراموش شعری مجموعوں کو تخلیق کر کے ’’ماہ تمام‘‘ کو اُردو ادب کے ماہِ ناتمام کے سپرد کر دیا۔

مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے

پروین شاکر کی شاعری میں فنی دسترس کے باوجود نثری نظمیں بھی ملتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے فن کا بحرکراں عروض و بحور کے محدود کناروں سے باہر تک رسائی چاہتا تھا۔

کس شخص کا دل میں نے دُکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے

پروین شاکر کی شعری سچائیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا اگر جو موت کے بے رحم ہاتھ 26 دسمبر 1994 کی اس شام کو، اس کا قلم نہ روک دیتے، جو اپنی پشت میں موت چھپائے خالی ہاتھ آئی تھی اور جس کی خبر اس کے شعری وجدان نے اسے پہلے ہی کر دی تھی ۔

موت کا ذائقہ لکھنے کے لیے
چند لمحوں کو ذرا مَر دیکھوں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے