کچی شراب سے موت کے کنویں تک

شراب بنانا ، فروحت کرنا اور استعمال کرنا بحثیت مسلمان حرام ، بحثیت پاکستانی بغیر اجازت نامے کے بنانا و فروحت کرنا جرم اور بحثیت انسان استعمال کرنا مضر صحت ہے –

حدیث مبارکہ میں شراب سے متعلق دس چیزوں پرلعنت بھیجی گئی ہے ١ خود شراب ملعون ہے ، ٢ شراب کا نچوڑنے والا ، ٣ جس شخص کے لئے شراب نچوڑی جارہی ہے ، ٤ شراب کی فروخت کرنے والا ، ٥ شراب کا خریدار ، ٦ شراب کو اٹھانے والا ، ٧ جس کے لئے یہ شراب لے جائی جارہی ہو ، ٨ شراب سے ہونے والی آمدنی ، ٩ استعمال کرنے والا شرابی ، ١٠ شراب پلانے والا سب ملعون ہیں –

دو دن سے میڈیا میں خبر چل رہی ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زہریلی شراب سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں جن کی اب تک کی تعداد تقریبا ٥٠ ہو چکی ہے جبکہ ١٥٠ کے قریب لوگ ہسپتال میں داخل کیئے گئے ہیں ، پولیس کی طرف سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق شراب میں مقدار بڑھانے کی غرض سے نشہ و نیند آور گولیاں اور سپرٹ کی زہریلی ملاوٹ کر کے فروحت کرنے والے مسیحی تھے – جبکہ پینے سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بھی مسیحی ہی ہے –

آئین پاکستان کی شق ٣٧ کے جز ‘ ح ‘ کے مطابق ریاست نشہ آور مشروبات کے استعمال کی سوائے طبی اغراض کے لیے یا غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو کی روک تھام کی پابند ہے – ٦ مئی سنہ ٢٠١٤ کو جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی محترمہ آسیہ ناصر نے دیگر ١٥رکان کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا جن میں مسلم لیگ (ن) کی مسیحی رکن قومی اسمبلی نیلس عظیم ، مسلم لیگ (فنکشنل) کی ہندو رکن ریتا ایشور اور مسلم لیگ (ن) کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار بھی شامل تھے ، اس بل میں آئین کی شق ٣٧ کی جز ” ح ” میں ترمیم پیش کی گئی جس کے تحت آئین کی اس شق سے غیر مسلم اور مذہبی مقاصد کا لفظ حذف کرنے کیلئے کہا گیا تھا اس بل کا مقصد پاکستان میں شراب کے استعمال پر پابندی کا دائرہ غیر مسلموں تک وسیع کرنا تھا مگر بدقسمتی سے یہ ترمیم نہ ہو سکی ،اگر اس ترمیمی بل کو منظور کر لیا تو شاید اتنی ہلاکتیں نہ ہوتیں – جبکہ پہلے سے موجود صدارتی آرڈیننس ١٩٧٩ کے تحت پاکستان میں شراب بنانا ، پینا اور فروحت کرنا قابل سزا جرم قرار دیا گیا جا چکا ہے مگر اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا –

ذیل میں شراب کی تاریخ اور کچی شراب کے متعلق معلومات شیئر کر رہا ہوں جو ممکن ہے مزید انسانی جانوں کے ضیاں کو روکنے میں معاون ثابت ہوں –

٢٠٠٤ میں Proceedings of the National Academy of Sciences سے شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شراب پتھر کے دور میں دریافت ہوئی تھی اور شاید اس وقت اس کے اچانک دریافت ہونے کی وجہ انگور کے گلنے سڑنے یا شہد میں کسی قسم کی کیمیکل سے ہونے والے عمل سے ہوئی ہو گی – لیکن بعد میں باقاعدہ بیری ، چاول ، شہد اور انگور وغیرہ سے شراب کشیدہ کرنے کا آغاز ٦ ہزار سے ٧ ہزار سال قبل مسیح کے درمیان میں ہوا –

جبکہ ایران میں ٥٤ سو سال قبل مسیح اور مصر میں کھجور سے ٦ ہزار سال قبل مسیح میں شراب کشیدہ کرنے کے شوائد بھی ملتے ہیں اس زمانے میں توہم پرستی کی وجہ سے ہر چیز کے لیے الگ سے دیوتا بنایا جاتا تھا مصر میں بھی شراب کے دیوتا کو سیریس کا نام دیا گیا تھا – تحقیقات کے مطابق مصر کے لوگ اس وقت بیئر کی ١٧ قسمیں اور انگور سے بنائی ہوئی شراب (جسے وائن کہا جاتا ہے) کی ٢٤ اقسام تیار کر سکتے تھے –

رپورٹ کے مطابق مصر اور عراق کے شہر بابل میں ٣ ہزار قبل مسیح میں ہی الکولحک شراب کی کشیدہ کاری کے شوائد بھی موجود ہیں جبکہ سوڈان میں ١٥ سو اور میکسیکو میں ٢ ہزار سال قبل مسیح سے ہی الکولحک شراب کی کشیدہ کاری شروع ہو چکی تھی –

یورپ میں شراب کے استمعال کا ذکر رومن سلطنت کے ہاں باکثرت ملتا ہے ، جبکہ یونانیوں کے ہاں ثقافتی طور پر شاعروں ، تاریخ دانوں اور فنکاروں کی طرف سے شراب کی بھرپور تعریف کا بھی ذکر ملتا ہے ، شاید اسی لیے قدیم یونانی مؤرخ تھوسی ڈائڈز نے لکھا ہے کہ ” the peoples of the Mediterranean began to emerge from barbarism when they learnt to cultivate the olive and the vine ”

شراب سازی کی صنعتی طور پر پیدوار اور ترقی رومن سلطنت کی توسیع کی ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی جیسے جیسے زراعت میں جدت آتی گئی ویسے ویسے اس صنعت کو بھی ترقی ملتی گی سٹوریج اور مختلف ذائقوں کے لیے کیمیکلز کا استمعال ، فلٹریشن اور دلکش باٹلنگ نے اسے کمال عروج پر پہنچا دیا – پورے یورپ میں بلخصوص فرانس ، سپین ، جرمنی اور برطانیہ میں ١٧ ویں اور ١٨ ویں صدی کو شراب کا سنہرا دور کہا جاتا ہے –

تاریخ دانوں کے مطابق ایران کو پامال کرتے ہوئے وادی سندھ میں آ بسنے والے آریہ سماج میں شراب کے استمعال کے شواہد موجود ہیں اسی طرح کے ایک مشروب کا ذکر ہندوں کی ویدیا میں بھی پایا جاتا ہے جو چاولوں سے کشیدہ کیا جاتا تھا جو صدیوں تک ہندوں کی اونچی ذاتوں کا مشروب رہا جبکہ نچلی ذات والی گندم ، باجرہ اور جؤ وغیرہ سے شراب کشیدہ کرتے رہے ہیں – برصغیر میں مغلوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد شراب کی کشیدہ کاری پر پابندی لگا دی گئی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نرم ہوتی رہی اور تاریخ میں مغل بادشاہ جہانگیر کو ” برانڈی ” کا موجد بنا کر کھڑا کر دیا –

١٦ ویں صدی میں پرتگالیوں کے برصغیر آنے پر پورٹ طرز کی اور گڑھ کی شراب متعارف ہوئی – ١٨٤٩ میں پنجاب پر انگریزوں کے مکمل قابض ہو جانے کے بعد انگریز حکمرانوں اور فوج کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے میں سطح سمندر سے ٦ ہزار فٹ بلند گھوڑا گلی پر فضا مقام پر ١٨٦٠ میں ایشا کی پہلی برٹش جدید شراب بنانے کی جدید بھٹی ( distillery ) کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں ١٨٨٥ اور ٩٠ کے درمیان موجودہ پاکستان کے شہر راولپنڈی منتقل کر دی گئی –

شراب کی کشیدہ کاری جو اب روایتی طریقوں سے جدید مشینری پر منتقل ہو چکی ہے بھی کسی ان دیکھے قاتل سے کم نہیں ، مگر وطن عزیز میں کچی شراب نوشی سے ہونے والی فوری ہلاکتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اوپر ساری تمہید باندھنے کا ہرگز مطلب مضر صحت مشروب کی معلومات شیئر کرنا یا کسی قسم کی ایڈوٹایزنگ کرنا نہیں بلکہ روز روز ہونے والی ہلاکتوں کے تناظر میں معلومات شیئر کرنا ہیں –

شراب کے بنانے کے عمل میں خمیر ( yeast ) استمعال کیا جاتا ہے ، خمیر بلکل ویسے ہی کارآمد ہوتا ہے کہ جیسے گھروں میں گوندھا ہوا آٹا خمیر ملانے کے بعد خمیر کیا جاتا ہے اور دودھ سے دہی بنانے میں کام آتا ہے – اگر دودھ قدرتی طور پر بگڑ جائے تو بگڑا ہوا دودھ ایک طرح کا دہی ہی ہے لیکن بد ذائقے ہونے کی وجہ سے کھانے کے قابل نہیں ہوتا کیونکہ اس کے اندر کے بیکٹیریا اور پھپھوندیاں ہمارے پسند کی نہ تھیں – یہی حال شراب کا بھی ہے اس کے اندر پھپھوندی اپنی پسند کی شامل کرنی ہوتی ہے اسی لیے خمیر شامل کیا جاتا ہے اسکی تقریباً ٧سو کے لگ بھگ اقسام موجود ہیں اور ہر ایک سے تیار کردہ شراب جسے وائین کہتے ہیں الگ الگ ذائقے کی ہوتی ہے۔ اس خمیر کا یہ کام ہے کہ اسے اپنی غذا کے طور پر استعمال کرنے کے بعد کاربوہائیڈریٹس (جسے میں اس مضمون میں اب سی ایچ او کہہ کے مخاطب کروں گا) کو شراب میں بدل دیتی ہے اور اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (جسے میں سی او کہوں گا ) کے بلبلے نکلتے ہیں جن سے جھاگ بنتی ہے –

سی ایچ او کی کئی قسمیں ہیں جن میں ہر طرح کی مٹھاس والی چینی جسے گلوکوز, لیکٹوز, مالٹوز اور کئی اور چینی کی قسمیں شامل ہیں اور اس کے علاوہ پھلوں اور اناج کے اندر جو نشاستہ موجود ہوتا ہے وہ بھی چینی میں تبدیل ہو جاتا ہے لہذا شراب بنانے کے لئے ہر طرح کے اناج جن میں جو, وار, مکئی , گندم اورچاول شامل ہیں استمعال ہو سکتے ہیں – شراب میں جو نشہ آور اور خمار پیدا کرنے والا عنصر ہے اسے الکوحل کہا جاتا ہے اور ان میں سے دو قسم کے الکوحل سب سے اہم ہیں ، ایک جو شراب کو شوقیہ پینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اسے ایتھینال کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اور ایک زہریلی الکوحل میتھینال بھی پھپھوندیوں کے جاری کردہ کیمیائی عمل کے دوران پیدا ہوتا ہے – اناج سے تیارکردہ شراب اکثر بیشتر بیئر ہوتی ہے جس میں ٥ فیصد الکوحل ہوتا ہے اور اسکے مقابلے میں وائین میں الکوحل کی مقدار ١٣ فیصد ہوتی ہے – شیمپین بھی ایک طرح کی وائین ہی ہے جس میں سی او کے بلبلے بنے ہوتے ہیں –

چونکہ بعض لوگ زیادہ تیز (گاڑھی) شراب پسند کرتے ہیں ان کے لئے ان شرابوں سے پہلے زہریلا میتھینال الگ کر کے بذریعہ عمل تبخیر جسے ڈسٹیلیشن کہا جاتا ہے ، جو کچی شراب بنتی ہے اسے جب ابالا جائے تو پہلے ٦٧ سینٹی گریڈ پر زہیلا میتھینال بخارات میں تبدیلی ہو کر اڑ جاتا ہے اور پھر ٨٧ سینٹی گریڈ پر ایتھنال بنتا ہے جبکہ پانی ١٠٠ سینٹی گریڈ پر ابلتا ہے لہذا ان تینوں عناصر کو الگ کیا جا سکتا ہے –

اب اس کے بعد ہم دیسی یعنی کچی شراب کی طرف آتے ہیں یہاں ایک بہت دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے جسم میں ان بیکٹیریا اور پھپھوندیوں کے عمل سے قدرتی طور پر زہریلی شراب ان سبزیوں اور پھلوں سے بنتی ہے جو کہ ہم نے غذا کے طور پر کھاتے ہوتے ہیں لیکن اس کا مضر اثر ہمیں دیکھنے میں اس لئے نہیں آتا کہ اس کی مقدار بہت ہی کم ہوتی ہے اور بننے کے بعد ہماری سانس کے ذریعے اور پیشاب میں گردوں سے ہو کر خارج ہو جاتی ہے ( یعنی یہ ویسے ہی زہریلے مادے ہوتے ہیں جنھیں انسانی جسم یورین کی شکل میں خارج کرتا ہے ) اندازہ ہے کہ ہماری سانس میں اس کی مقدار ١ ملین میں ١/٢-٤ حصے ٤٥ پارٹ پر ملین ہوتی ہے اور تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک کیلو گرام سیب سے ١.٤ گرام میتھینال بنتی ہے –

ایک اتفاقی بات یہ بھی ہے کہ دونوں قسم کے الکوحل کی رنگت اور بو یکساں ہوتی ہے لیکن میتھینال زہر قاتل ہے اسے شراب بنانے والے اکثر اپنے منافع کو بڑھانے کیلئے قصداً الگ نہیں کرتے۔ یا باقی شراب میں اسے گاڑھا کرنے اور ذائقے کیلئے قصداً ملا دیتے ہیں اور اس کے زہریلے پن کی یہ حد ہے کہ صرف ١٠ ملی لیٹر ہی انسان کو بینائی سے محروم کر کے مستقل طور پر اندھا بنا سکتا ہے اور یہ بدقسمتی سے اس کا زہریلا پن بیچنے کے١٢ سے زیادہ گھنٹے گزرنے کے بعد نمودار ہوتا ہے اور اس وقت تک اس زہر نے کام کر دیا ہوتا ہے –

پاکستان میں تو کچی شراب بغیر کسی پراپر پراسیس کے بنائے بغیر ہی فروحت ہوتی ہے جس میں ہسپتالی اسپرٹ ( جو عموما فرنیچر پالش میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ) ، آفٹر شیونگ لوشن میں مختلف طرح کی نشہ آور گولیوں کی آمیزش وغیرہ اہم ہیں

لوگ کچی شراب صرف اس وجہ سے پیتے ہیں کہ یہ برینڈڈ شراب سے کئی گنا سستی ہوتی ہے جبکہ اس کا پینے کے ساتھ ساتھ سونگھنا یا جسم کے ساتھ زیادہ مقدار میں لگنا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا اس محلول کا استعمال کئی صنعتوں میں مثلاً نہ جمنے والے پینٹ اور جراثیم کش ادویات بنانے کے لے بھی کیا جاتا ہے – جہاں ریاست کو اس معاملے میں پہلے سے بڑھ کر سرگرم ہونے کی اشد ضرورت ہے وہاں ہی عوام کو بھی اس زہر قاتل کے متعلق آگاہی دیے جانے کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ اس گھناونے کاروبار کو روک کر مزید قیمتی انسانی جانوں زیاں کو روکا جا سکے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے