ایک منٹ کی خاموشی

میرے عزیز ہم وطنو! میرے ڈنڈا برادران ! وطن عزیز کے حکمران ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ کی خاموشی

میں لکھنا چاہتا ہوں جو میں نہیں لکھنا چاہتا تھا ،لیکن کیا کریں صاحب لکھنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے ، پاکستان کی عوام اور حکمران ایک دوسرے کی آںکھوں کی دھول جھوکنے میں مصروف ہیں ، اور رہی بات ہوش کے ناخن لینے کی تو کیا ہی کہتے ہیں ایک دوسرے کو انہی ناخنوں سے نوچتے نوچتے تقریبا 70 سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، خیر آج کی کہانی تو غضب پریم کی عجب کہانی ہے ،کہتے ہیں ہمارے ملک کا نظام ڈنڈے سے چلتا ہے ، ملک میں کہیں بھی کبھی بھی کوئی بھی خرابی ہو سدھار ڈنڈے سے ہی آتا ہے اور پاکستان کی عوام اس بات پر یقین محکم رکھتی ہے، کیا سیدھی عوام ہے اور اس پر اس کے حکمران اور ڈنڈا برادران یہ گاڑی کے تین پہیے ہیں اور چوتھا پہہ جس پر ان تین پہیوں کو ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کب ، کہاں پھٹ جائے ، مجبوری یہ ہے کہ ہم اس پہیہ کو تبدیل نہیں کر سکتے ہمارے پاس ایک ہی حل ہے اس کو پنکچر لگائے جاو کام چلائے جاو اور اگر زیادہ مسلہ بنے تو بس اتنا کہنا کافی ہوگا اس پہیہ کو تبدیل کیا جا رہا ہے ،

ہمیشہ کی طرح معصوم عوام اور سرفروش جوان تو نہیں سمجھے ہونگے لیکن رہی بات حکمرانوں کی تو انکی اس پہیہ سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہے ، اس پر جمہوریت کی گاڑی چلتی ہے اور انکی حد سے بڑھی توندیں پلتی ہیں ،خیال یہ کیا جاتا ہے کہ جرم کی سزا اس لیے دی جاتی ہے کہ دوبارہ جرم نہ کیا جا سکے یہ پھر کہہ سکتے ہیں کہ سزائیں جرم کی روک تھام کےلئے بنائی اور دی جاتی ہے ، بات بھی ایسی ہی ہے اور حقیقت بھی ہےسزا جتنی سخت ہو گی جرم کی شرح میں اسی نسبت سے کمی آئے گی
واپس آتے ہیں غضب عدالتوں کے عجب انصاف کے خوشنما انصاف کی کہانیوں پر آپ آئے روز دیکھتے ہیں سنتے ہیں اور میڈیا کی سرخی آپکو بتاتی ہے کہ ملک کے طول و عرض سے پکڑے گئے خطرناک ترین دہشتگردوں کی پھانسی کے احکامات جاری کر دئے گئے ہیں، اب کوئی بھی آپکو یا آپ کے بچوں کو نقصان نہیں پہنچائے گا ہر شام کو آنے والی اس خبر سے مائیں اور بچے سکون سے سوتے ہیں ،

لیکن صاحب کیا کہنے ان مسیحاوں کے جو ان درندہ صفت دہشگردوں کو وطن عزیز کے کونوں کھدروں سے پکڑ کر پابند سلاسل کرتے ہیں مقدمہ چلاتے ہیں اور ان کے لیے صرف ایک ہی سزا تجویز کی جاتی ہے وہ ہے موت ، کیوںکہ انکی موت سے سارے پاکستان کی زندگی وابستہ ہے ، انکی موت کا سامان کرنے کےلئے سال 2015 میں فوجی عدالتوں قائم کی گَئیں،فوجی جوانوں نے ڈنڈے ہاتھ میں لیے بوٹ کسے اور نکل پڑے ان بھیڑیوں کو پکڑنے ، بہت سے دہشتگردوں کو پکڑا پابند سلاسل کیا اور پھر ان پر مقدمے چلے جس میں فوجی عدالتوں نے اپنے قیام سے اب تک 268خطرناک دہشت گردوں کو سزائیں سنائیں لیکن سزا دینے والوں کی جانب سے کمال اطمینان کے ساتھ صرف 12 کو پھانسی گھاٹ کا راستہ دکھایا جاسکا ، وہ جو دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کےلئے عدالتی بنائیں گئی تھی وہ تو جنوری 2017 میں ختم ہو جائیں اور دندناتے ، کھاتے پیتے پھریں گے وہی دہشتگرد ،
دہشتگردوں کو پھانسی نہیں چڑھایا جا رہا ، انکو پالا جا رہا ہے ، بچایا جا رہا ہے ، پہاڑوں میں دربدر پھرنے والوں کو چاردیواری مہیا کی جا رہی ہے اور یہ عوام ، خیرعوام کو تو رہنے ہیں دیں یہ ڈنڈابرادران بھی خیر انکی کیا بات کی جائے وہ سر جس کو سلوٹ کرتے تھے اب تبدیل ہو گیا تو بات انکو بھی کیا پتہ کیا ہو رہا ہے اور ہمارے حکمران ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کےلئے بس ایک منٹ کی خاموشی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے