اسلام کے معاشی نظام کا فلسفہ

معاشی نظام کے حوالے سے دو چیزیں اہم ہیں (۱) فلسفہ معیشت (۲) اور اس فلسفہ کے مطابق قانون سازی۔ پہلے مرحلے پر فلسفہ معیشت کی وضاحت ہو جائے تو اس کے مطابق قانون سازی مشکل نہیں ہوتی۔

[pullquote]فلسفہ معیشت[/pullquote]

معیشت کا لفظ ’’عیش‘‘ سے نکلا ہے اور ’’عیش‘‘ کا معنی ہے ’’زندگی‘‘ اور ’’معیشت ‘‘کا معنی ہوتا ہے ’’زندگی گزارنے کے وسائل اور ذرائع‘‘ جس کے اندر آمدن اور خرچ دونوں شامل ہیں۔ معیشت کے میدان میں تین بنیادی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
(۱) سرمایہ۔ (۲) محنت۔ (۳) صارف کی ضرورت۔

[pullquote]سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی عنصر[/pullquote]

سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں اس میں تو اتفاق ہے کہ معیشت کے میدان میں مقصود کمانا ہے، اختلاف اس میں ہے کہ کمائی کا بنیادی عنصر کیا ہے؟۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کمانے کا بنیادی عنصر سرمایہ ہے اور اہمیت سرمایہ کو حاصل ہے اور مقصود سرمایہ دار کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے، طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جنس کو غائب کر دیا جائے اور ضرورتوں میں شدت پیدا کی جائے، نتیجتاً قیمتیں بڑھ جائیں گی اور سرمایہ دار کو فائدہ پہنچ جائے گا، اس لئے اس نظام میں غبن، احتکار (ذخیرہ اندوزی) وغیرہ سب طریقے درست ہیں۔ اس نظام کا مؤقف یہ ہے کہ سود جائز ہے اس لئے کہ سرمایہ میری ملکیت ہے اور جس طرح میں اپنے مکان، گاڑی وغیرہ کی اجرت (کرایہ) لے سکتا ہوں اسی طرح اپنے مال کی بھی اجرت لے سکتا ہوں۔

[pullquote]اشتراکی نظام کا بنیادی عنصر[/pullquote]

اشتراکی نظام میں کمائی کا بنیادی عنصر محنت ہے اور اہمیت محنت کو حاصل ہے اور محنت کش کو فائدہ پہنچانا مقصود ہوتا ہے، طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ محنت کشوں کی انجمنیں اور تنظیمیں بنائی جائیں، مزدور آزاد بازار سے دستیاب نہ ہوں تو لوگ انجمنوں کے پاس آئیں اور انجمن والے مزدور کی اجرت بڑھا دیں تو اس طرح محنت کش کو فائدہ پہنچے گا۔

[pullquote]اسلامی معیشت کا بنیادی عنصر[/pullquote]

اسلامی فلسفہ معیشت ان دونوں فلسفوں سے مختلف ہے۔ اسلامی معیشت میں سرمایہ اور محنت ان دونوں کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے اصل اہمیت صارف کی ضرورت کے حل کو ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا‘‘
گویا زندگی کی ضرورتوں اور وسائل کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے اور کسب انسان کے ذمہ ہے۔

ابتدا میں جب انسان تعداد کے لحاظ سے کم اور اس کی ضرورتیں محدود تھیں تو ہر شخص کی ضرورتیں اپنے کسب سے پوری ہو جاتی تھیں ،کہ شکار کر لیتا تھا، ہڈی سے اسلحہ دفاع کے لئے، چمڑے سے لباس اور گوشت سے بھوک کی ضرورت پوری کر لیتا تھا۔ جب تعداد بڑھ گئی اور ضرورتیں پھیل گئیں تو ایک شخص کے اپنے کسب سے کفایت نہیں ہو رہی تھی، دوسرے کے کسب سے استفادے کی ضرورت پڑی، تو خرید و فروخت/ تجارت درمیان میں آئی، تجارت کی ابتدائی اور طبعی شکل اجناس کا باہمی تبادلہ ہے، مثال کے طورپر ایک آدمی کے پاس جو ہے اور دوسرے کے پاس گندم ہے، گندم والے کو جو کی ضرورت ہے، جو والے کو گندم کی ضرورت ہے، یہ دونوں باہم تبادلہ کر لیتے ہیں، اب بظاہر تو انہوں نے گندم اور جو کا تبادلہ کیا ہے جوکہ اجناس کا تبادلہ ہے لیکن درحقیقت ہر ایک نے دوسرے کی ضرورت کے حل میں معاونت کی۔ جب ایسی صورت ہو تو تفاضل کا مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اس میں اصل مقصد صارف کی ضرورت کا حل ہے۔

ایک مرحلہ ایسا آیا کہ جب طرفین کی ضرورتیں ایک دوسرے سے پوری نہیں ہو پا رہی تھیں، غلہ ایک کے پاس تھا اس کو کپڑے کی ضرورت تھی تو دوسرے کے پاس کپڑا نہیں تھا تو اس مشکل کے حل کے لئے درمیان میں سکہ آیا۔ اب سکہ بذات خود نہ کھانے کی چیز ہے نہ پینے کی، نہ ہی اوڑھنے کی چیز ہے، لیکن معیشت کے میدان میں اس سے مشکل حل ہو جاتی ہے کہ غلہ والا سکہ والے کو غلہ بیچ دے گا اور اس سے کپڑا خرید لے گا۔

[pullquote]معیشت میں جائزو ناجائز کا معیار[/pullquote]

اب اسلامی فلسفہ معیشت میں یہ ہے کہ معاشی میدان میں ہر وہ عمل جو صارف کی ضرورت کے حل میں معاون ثابت ہوتا ہے وہ مرغوب ہے، مثلاً :قرض حسنہ، صدقہ، عاریت، وقف، ھبہ وغیرہ اور ہر وہ عمل جو صارف کی ضرورت کے حل میں رکاوٹ اور مشکل پیدا کرے وہ حرب مع اللہ ہے، اس لئے کہ اللہ نے رزق کا ذمہ لیا ہے اور یہ عمل اللہ کے ذمہ میں معاون نہیں بلکہ رکاوٹ بن رہا ہے، مثلاً: پیسے کو جمع کر کے اس سے کنز بنانا، تاکہ پیسہ گردش میں نہ رہے، پھر تو سرمایہ، سرمایہ داروں میں گردش کرے گا اور غربت بڑھتی جائے گی، اور بازار میں اجناس کے انبار بھی لگ جائیں تو غریب کے پاس پیسہ نہیں ہوگا، جب پیسہ نہیں ہوگا تو پھر وہ جنس خریدے گا کیسے؟، تو پیسہ کا کنز کرنا صارف کی ضرورت کے حل میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

اسی طرح جنس کو جمع کر کے ذخیرہ کرنا جس کو ’’احتکار‘‘ کہتے ہیں۔ اب پیسوں کی بوریاں بھی ہوں تو جنس بازار میں نہیں تو کیسے خریدیں گے؟، تو اس سے صارف کی ضرورت کے حل میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اسی طرح ’’غبن فاحش ‘‘یعنی بازار سے زیادہ قیمت لینا، کسی کی نادانی سے استفادہ کرنا، کسی کی مجبوری سے استفادہ کرنا، جنس ایک ہو اور اس پر اضافہ لینا، اور اگر سکہ ہے اور ایک ملک کا سکہ ہے اس پر اضافہ لیتے ہیں تو کنز بن جائے گا اور اگر جنس ایک ہے تو اضافہ لیتے ہیں تو احتکار بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بیع سلم میں مبیع تو موجود نہیں لیکن انسانی ضرورت اس سے وابستہ ہے تو یہ سودا جائز ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ اگر کھجوریں درخت پر ہوں اور اس کا تخمینہ پانچ وسق کا لگایا جائے تو بعض فقہاء ان روایات کی بنیاد پر تازہ کھجوروں سے ان کا تبادلہ اس لئے جائز قرار دیتے ہیں کہ کھجوروں کے موسم میں تازہ کھجوروں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، اپنے بچوں، مہمانوں، دوستوں وغیرہ کے لئے۔ لیکن اگر کاٹی ہوئی تر کھجوریں ہوں تو پھر اس کا مبادلہ خشک کھجوروں سے جائز نہیں اس لئے کہ تر کھجوریں یا تو خشک ہو جائیں گی یا سڑ جائیں گی، اس کی کوئی خاص ضرورت ان سے وابستہ نہیں کیونکہ اگر خشک ہو جائیں تو وہ تو پہلے سے موجود ہیں اور اگر سڑ جائیں تو بھی بے فائدہ ہیں۔ انسان کی معاشی ضرورت کی اسلام میں اہمیت اس حد تک ہے کہ قطعی نصوص سے ثابت حرام بھی شدید ضرورت یعنی اضطرار کی حالت میں ضرورت رفع کرنے کی حد تک جائز ہے جیسے مردار خنزیر وغیرہ۔

اور اگر کسی شدید ضرورت (اضطرار) کے وقت زندگی بچانے کے لئے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جائے جس سے نصوص قطعی سے حد ثابت ہے تو ایسی صورت میں وہ حدود بھی معطل ہو جاتی ہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: لاقطع فی عام سنۃ‘‘ (قحط سالی میں چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے)۔ (الاموال للقاسم بن سلام ۳/۲۷۶)

اسی طرح ایک ایسی عورت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حد جاری نہیں فرمائی جس نے شدید پیاس کی صورت میں ایک چرواہے سے پانی مانگا، وہ اس شرط پر پانی دینے کے لئے آمادہ ہوا کہ یہ عورت اس سے زنا کرے تو اس عورت نے زنا کا ارتکاب کر لیا اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اقرار زنا کر کے اپنے اوپر حد لگانے کی درخواست کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر حد جاری نہیں فرمائی۔ (سنن سعید بن منصور ۵/۹۳)

حتیٰ کہ قبیح ترین عمل یعنی کفر و شرک بھی شدید ضرورت کی صورت میں زبان پر جاری کرنے کی حد تک جائز ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے ’’من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من أکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان۔ (النحل:۱۰۶)

[pullquote]سود کی توجیہ کرایہ سے کرنے کا جواب[/pullquote]

سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفہ معیشت میں سود کی توجیہ کرایہ سے کرنا، اس کی کوئی معقول دلیل موجود نہیں ہے اس لئے کہ کرایہ کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں (۱) چیز بذات خود موجود ہو (۲) مالک کی ملکیت اس میں قائم ہو (۳) آجر نے اس سے استفادہ کیا ہو، مثلاً: کمرے میں ایک بندے نے ایک مہینہ گزارا، مہینہ کے بعد جب وہ یہ کمرہ چھوڑتا ہے، تو کمرہ موجود ہے، مالک کی ملکیت اس پر برقرار ہے، سہولت کی وہ اجرت دے دے۔ لیکن اگر کوئی کہے: فلاں بھوکا تھا اور اس کو میں نے روٹی دی ہے، اور یہ روٹی میں نے کرایہ پر دی، تو بھوکا تو روٹی کھا کر بھوک مٹائے گا تو نہ روٹی رہی، نہ مالک کی ملکیت، تو پھر کرایہ کس چیز پر لیا؟ یہ یا تو فروخت ہوگا یا قرض یا ھبہ یا صدقہ ہوگا، اجارہ کا تصور یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ پیسہ بھی اسی کی نظیر ہے۔

معیشت کے میدان میں مصروف عمل لوگوں کی ذہنیت دو طرح کی ہوتی ہے (۱) کمانا، کمانے پہ کمانا اور بڑھانا (۲) کمانا برائے لگانا، جس کو ’’انفاق‘‘ کہتے ہیں ۔دونوں صورتوں میں ایک مشترک عیب ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے کمانے اور صارف کی ضرورت کے حل کے درمیان جو اعتدال کا ایک غیر محسوس توازن اور پردہ ہے کبھی اس کو چاک کرتے ہیں تو اس کو حرص کہتے ہیں، بچت اور کمانے کی ذہنیت کے دو مزید عیوب ہیں (۱) بخل یعنی لگانے کی جگہ پر بھی نہ لگانا اور نہائی عیب اس کا ’’شح‘‘ ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے: مردار جانور ہو اور کتے اس کو نوچتے ہوں تو جلدی بھی ہر ایک کو ہوتی ہے، غُر غُر بھی کرتے ہیں اور خواہش ہر ایک ہوتی ہے کہ دوسرے کو ضرورت کے مطابق بھی نہ لینے دے، سب پر میرا قبضہ ہو دوسروں کو ضرورت کے مطابق بھی کچھ نہ ملے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: الدنیا جیفۃ و طالبھا کلاب۔

انفاق والی ذہنیت کے الگ سے تین عیوب ہیں (۱) ریاء (دکھاوا) (۲) اسراف (ضرورت سے زیادہ لگانا) (۳) تبذیر (بنیادی ضرورت ہی نہیں اس میں لگانا تبذیر ہے)۔

لہٰذا اسلامی فلسفہ معیشت میں ’’ربا‘‘ کی ذہنیت کی نسبت ’’انفاق‘‘ کو ترجیح ہے، لیکن ’’انفاق‘‘ کے میدان میں ریاء، اسراف و تبذیر کو مذموم قرار دیتے ہوئے صدقہ کے عمل کو پسند کیا جاتا ہے اور صدقہ کا معنی یہ ہے کہ ایمان کے ذریعے سے جو سودا جان اور مال کا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ‘‘(توبہ: ۱۱۱)۔ اس کے اس انفاق سے اس سودے کی تصدیق ہو یعنی اس کا مال اللہ کی ہدایات اور رسول کی اطاعت میں خرچ ہو جائے اور اس کے کئے ہوئے سودے کی تصدیق ہو جائے، کمانے کے میدان میں بھی اور لگانے کے میدان میں بھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے