سالِ نومبارک!

نیا سال آتا ہے تو ہر شخص کو فلسفے جھاڑنے کا مرض لا حق ہو جاتا ہے۔ کسی کو فکر پڑتی ہے کہ زندگی کا ایک سال گھٹ گیا، کوئی سالِ گذشتہ کے جائزے لیتا ہے۔ اخباروں رسالوں میں گئے سال کی فلموں، کھیلوں، کتابوں، ڈراموں پر خاص نمبر نکلتے ہیں۔ نئے سال کی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں۔

31 دسمبر کی رات بے چارے پولیس والوں کو ایک نئی مصیبت اٹھانا پڑتی ہے جس وقت ساری دنیا نیا سال منانے میں مشغول ہوتی ہے، یہ بے چارے ناکوں پہ کھڑے ہر آتے جاتے کا منہ سونگھ رہے ہوتے ہیں۔ بد خواہوں کا کہنا ہے’ دیہاڑی’ لگا رہے ہوتے ہیں مگر ایسی کڑی مشقت کے بعد کچھ تو ان کا بھی حق بنتا ہے۔ ذرا ان کے جوتوں میں کھڑے ہو کر سوچیے خدانخوستہ اگر یہ ڈیوٹی آپ کو کرنی پڑ جائے تو؟

بعض قاعدے قرینے کے لوگوں کو ہم نے دیکھا کہ نئے سال کی ایک قرار داد پاس کرتے ہیں۔ یہ قرارداد قطعاً ذاتی ہوتی ہے لیکن جانے کیوں اسے کچھ ایسے جتا کر منظور کیا جاتا ہے جیسے کسی زمانے میں شریف بی بیباں پردہ کیا کرتی تھیں۔ چلمن سے لگے بیٹھنے والا معاملہ ہوتا ہے۔ خواتین کے رسالوں میں تو یہ قرارداد، ڈائری میں لکھ کر کسی ایسی جگہ رکھ دی جاتی تھی جہاں اس کے پڑھے جانے کے خوب روشن امکانات ہوں۔

فلموں میں نیم تنہائی میں خود کلامی کی جاتی تھی مگر اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو بتا دیا جاتا ہے کہ ہوشیار ہم یہ کرنے والے ہیں۔ جن لوگوں کو بلاک کیا گیا ہوتا ہے انھیں دوسرے فوری سکرین شاٹ لے کر بتا دیتے ہیں۔ یوں فوری طور پر دوسری طرف بھی قرارداد کا توڑ تیار ہو تا ہے۔ ان قراردادوں میں سب سے زیادہ تعداد میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو وزن کم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔

مزے داری کی بات یہ ہے کہ کچھ ایسے ہی عہد وہ سالِ گذشتہ بھی کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر سال یہ ہی عہد دہراتے ہیں۔ چند لوگ کچھ لوگوں کو بھول جانے کا معنی خیز سا ارادہ کرتے ہیں مگر اگلے سال بھی ان کی خواہش یہ ہی رہتی ہے شاید لوگ بدل جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سے دوست اعلان کرتے ہیں کہ اگلے سال، وہ دوغلے اور منافق لوگوں کی چالوں سے ہو شیار رہیں۔ مزے کی بات کہ یہ ہی عہد ان کے تمام دوست بھی کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ایک دوست کی دعا ہے کہ آنے والے سال میں خواتین شادیوں پر لمبے لمبے جھبلے پہننے چھوڑ دیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اب دامن میں الجھ کر گریں کہ تب۔ دوسرے صاحب نے التجا کی کہ اگلے سال ساس بہو کے ڈرامے نہ بنیں۔ گویا وہ درپردہ اردو ڈراما انڈسٹری کے بند ہونے کی دعا کر رہے ہیں۔ ایک اور صاحبہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ اس سال وہ مذید بے وقوف نہیں بنیں گی۔ ویسے انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بالکل درست وقت پر لیا گیا۔ واقعی مذید بے وقوف بننے کی کوئی گنجائش اب ان میں باقی نہیں۔

سکول میں ہمارے سر فیضی عربی پڑھایا کرتے تھے۔ فیضی صاحب کو بر موقع کسی بھی قسم کا شعر پڑھ کر یہ امید ہوتی تھی کہ طالب علم اس سے خاطر خواہ اثر لیں گے۔ ایک بار کسی لڑکی کی ڈائری، مع نئے سال کے لیے کیے گئے عہدو پیمان، سر کے ہاتھ لگ گئی، جب واپس ملی تو سرخ قلم سے گودی ہوئی، پورے پورے جملے قلم زد اور کئی جگہ املا کی درستی کے ساتھ بر محل اشعار بھی موجود تھے۔

باقی سب تو یاد نہیں ایک شعر یاد رہ گیا مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتاہے!‘

پیدائشی کاشت کار ہونے کی وجہ سے یہ شعر کہیں دماغ میں اٹک گیا۔ کیونکہ بارہا، دانے کو خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے اس بارے میں تو کوئی شک نہیں تھا کہ خاک میں ملنے کے نتائج برے نہیں ہوتے ہیں۔ ( یہ لڑکی میں نہیں تھی)

‘بہت سال بیت گئے ہیں، دھندلی صبحوں میں اخبار میں نئے سال کی نئی تاریخ نظر آتی ہے، ڈاک میں تہنیتی کارڈ آتے ہیں، تحفے تحائف، نئے سال کی دعوتیں اور پھر ایک پورا نیا سال۔ سب لوگ اپنے اپنے باندھے گئے ارادوں اور کیے گئے وعدوں کو نبھانے کی کوشش میں جت جاتے ہیں۔

اگلے سال، نئے خواب ہوں گے نئے ارادے، نئے دوست، نئے دشمن۔ دنیا کی سیاست بھی کسی اور سمت میں جا ٹکے گی جانے خاک ہونے کے اس عمل میں کون گل و گلزار ہوتا ہے اور کون کھاد بن کر دوسروں کو رنگ دیتا اور خوشبو عطا کرتا ہے؟

نیا سال مبارک!

بشکریہ بی بی سی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے