پاکستان کی زوال پذیر صحافت

پاکستان کی بنیاد ایک خالص اسلامی نظریے کے اوپر رکھی گئی لیکن یہ اس ملک کی بد قسمتی یا پھر اربابِ اقتدار کی اپنے عہدوں سے بد دیانتی کہئے کہ قیام سے لے کر آج تک اس نظریے اور اور اس اساس کو نہ صرف یہ کہ کوئی قابلِ عزت مقام ملا بلکہ ہوا یہ کہ ملک میں اسی نظریے کی بنیاد پر امتِ محمدﷺ کو اس نظریے کے اجارہ داروں نے تقسیم در تقسیم کردیا۔ کچھ مہربانی اہلِ اقتدار نے کردی کہ ہمیشہ اس نظرے اور اساس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔

جب اسلامی نظریاتی بنیادیں برائے نام رہ گئیں تو نبض شناسوں نے ملک و ملت کے مسائل کا حل مغربی جمھوریت میں تلاش کرنا شروع کردیا۔ جو کہ اپنی اصلی اور حقیقی معنوں میں اسلام کے جمھوری اور شورائی نظام کے اس وقت سب سے قریب تر ہے۔ لیکن ہو ا یہ کہ یہاں پر بھی ملک کے جاگیردار ، سرمایہ دار اور مفاد پرست ٹولے نے جمھوریت کا حلیہ بگاڑ کر اسکے اپنے ذاتی اور خاندانی مفاد کا ذریعہ بنادیا۔
زمانے کا دستور رہا ہے۔ کہ جب اس طرح کے حالات ہوں تو ملک کا اہلِ قلم اور صحافتی برادری ان مظالم اور ناانصافیوں کے سامنے صف آراء ہوجاتی ہے۔ شعراء اور ادیب قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کا حق ادا کرتے ہیں۔ صحافت سے منسلک افراد آوازِ حق بلند کرتے ہیں۔

ویسے تو ہندوستان کی تاریخ میں جب انگریزی استعمار حکمران تھا۔ ابوالکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ نے حق پرستوں کی ترجمانی کرکے صحافتی اقدار کی ایک مثال قائم کردی تھی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد بھی صحافتی حق گوئی کا چراغ میر خلیل الرحمان، مجید نظامی اور دوسرے کئی صحافی کسی نہ کسی انداز میں روشن کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں صحافت صرف پرنٹ میڈیا کے مرہونِ منت تھی اور الیکٹرانک میڈیا کی نمائندگی صرف پی۔ٹی۔وی کر رہا تھا۔ایسے حالات میں اگرچہ صحافت ایک مشکل کام تھا لیکن اس سے وابستہ افراد میں کئی ایسے نام تھے جنہوں نے اس پیشے کے وقار اور اساس کی آبیاری اپنے اصولوں اور نظریات سے کی۔

لیکن جب سے پاکستان میں میڈیا کو آزادی ایک فوجی جرنیل کے زمانے مین عنایت کردی گئی۔ یوں لگتا ہے ۔ کہ جیسے یہ صحافتی آزادی بنیادی اخلاقیات، اقدار اور نظریاتی اور اصولی صحافت کا جنازہ نکالنے کی شرط پر دی گئی۔کیونکہ صحافت کا یہ مقدس پیشہ روز بروز ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرتا گیا۔ اور آج تو حالت یہ ہے۔ کہ میں جب الہلال اور البلاغ کی صحافت کو سامنے رکھ کر آج کی صحافت کا جائزہ لیتا ہوں تو لا محالہ امام الہند ابوالکلام آزاد کے یہ الفاظ زبان پر آجاتے ہیں۔
.تجارت کی پہلی بنیاد مسئلہ عوض و بدل ہے۔ اور راہِ دعوت کی پہلی بنیاد وہ چیز ہے جو بالکل اسکا برعکس و تضاد ہے جو تجارت کے مذہب کا پہلا رُکن تھا۔تجارت نے اپنا مذہب عوض و بدل کے عقیدے پر قائم کیا ہے۔ اور دعوت کے مذہب کا پہلا عقیدہ ایثار و قربانی ہے۔ پھر کہاں عوض کی تلاش اور کہاں قربانی کی پُکار۔۔۔۔

آج کل کی صحافت بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اسی اصول پر چل رہی ہے کہ اسکو ایک منافع بخش کاروبار کی صورت کیسے دی جائے بھلے اسکے لئے صحافت کے بنیادی اقدار کا گلا گھونٹنا پڑے۔ بھلے اسکے لئے صحافت کے اساسی فکر اور سوچ کا تمسخر اُڑایا جائے۔بنیادی انسانیت کے عظیم فلسفے کو بالائے طاق رکھ کر صرف پروگرام کے ریٹنگ کی خاطر صحافت کے ابجد سے بے خبر اینکر حضرات انسان کی عزتِ نفس کو سرِ عام برباد کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

بڑے ادب و احترام کے ساتھ کہتا ہوں کہ سرِ شام ہر میڈیاہاؤس اپنے پیادوں کے ساتھ عوامی جذبات کو ابھارنے کی لئے چن گنے چنے سستی شہرت کے دلدادہ اور سیاست کے رموز سے نا بلد پارٹی نمائندوں کو بٹھاکر جو دکان سجا لیتے ہیں ان سے آج تک اس قوم کے زخموں پر کونسا مرہم پڑا؟؟ سوائے ریٹنگ کے دوڑ کی اور کونسی ذہن سازی ہوئی ہے نوجوان نسل کی؟؟ پاکستان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں یہ بے نتییجہ ٹاک شوز کیا مدد کرسکے ہیں سوائے اسکے کہ گرما گرم بحث و مباحثہ اور آداب سے کہیں دور بیٹھے ہوئے لوگ صرف ٹی۔وی کی ریٹنگ اور عوام میں مایوسی، اضطراب اور نفرتیں بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔

سرِ شام ہر میڈیا ہاؤس پر مختلف پارٹیوں کے نا عاقبت اندیشوں کو بٹھا کر رات گئے تک جو دکان اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں لگائے جاتے ہیں ۔ اس روش نے قوم کے نوجوانوں کو تفریق اور نفرت کے وسیع خلیج سے روشناس کرادیا ہے۔ نظریات ، اخلاقیات اور آداب سے بے خبر پارٹی رہنماء جب سب کچھ بلائے طاق رکھ کر، قبر و آخرت کو داوؤ پر لگا کر دوسروں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں ۔ تو لا محالہ یہی سوچ اور انداز نوجوانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور دوسروں کے نظریات کا احترام کرنا ختم ہوتا جارہا ہے۔ جسکی ایک بڑی ذمہ داری ان میڈیا ہاؤسز پر عائد ہوتی ہے۔ جو اپنے تجارتی مفاد کے لئے قومی مفاد کو قربان کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

ہم آج تک ان صحافتی نا خداؤں سے مذہب ، مسلک اور قوم پرستی کے تفرقوں اور فرقہ بندیوں کے قصے سُنتے تھے۔ لیکن وائے افسوس کہ صحافتی برادری بھی مفاد اور تجارتی بنیادوں پر فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ کوئی میڈیا ہاؤس اپنے اوپر حکومت وقت کی مدح سرائی کا لیبل لئے پھرتا ہے۔ تو کوئی اخبار کسی پارٹی کے سیاسی نظریات کا ترجمان گردانا جاتا ہے۔ کسی میڈیا ہاؤس کے تانے بانے مقتدر فوجی اداروں کی خوشنودی کے ساتھ جڑے نظر اتے ہیں تو کوئی ٹی۔وی چینل مستقبل میں حکومت میں آنے کی امید کے ساتھ حزبِ اختلاف کی ترجمانی کا حقِ وفاداری ادا کرتا ہے۔

ضمیر و احساس کا قتل کرکے کچھ چینلز مراعات کی دنیا کے دلدادہ اور حقائق سے منہ موڑ کر کسی کی ذاتی زندگی کی ٹوہ میں لگے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو اپنے من پسند ٹولے کے اُٹھنے ، بیٹھنے، انکے بیرونِ ملک سے واپسی یا جانے کو ، انکی شادی بیاہ کے خبرکو بریکنگ نیوز بنا کر شاباشی وصول کرنے کی اور ریٹنگ بڑھانے کی تگ و دو میں لگے ہوتے ہیں۔ اور کچھ تو وہ ہیں جو کہ نادیدہ قوتوں کی خوشنودی میں انٹرنیشنل جھوٹا کہلوانے سے بھی نہیں کتراتے۔

بنیادی قومی مسائل صحافتی دنیا سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ آئے دن کے واقعات پر صحافت کی کشتی ہچکولے کھاتی قوم کی رہنمائی کے نام پر اپنے مالکان کے خزانے بھرنے کی دوڑ میں لگی نظر آتی ہے۔ آج کل کے دور میں پاکستان میں ٹی۔ وی پر بیٹھے صحافیوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے ۔ کہ شاید یہ پاکستان کا وہ واحد پیشہ ہے جہاں تعلیمی قابلیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جسکی زبان جتنی تیز اور خوشامد اور جھوٹ بولنے اور بیچھنے کی صلاحیت جتنی اچھی ہو وہ اس قدر اچھا صحافی اور رپورٹر بننے کا اہل ہے۔

اندھیروں میں ڈوبتے ہوئے اس تاریک بستی میں ابھی بھی امید و آس اور ضمیر و اخلاق کی چند کرنیں باقی ہیں۔ ایسے صحافی بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک بڑی مشکل کے ساتھ ضمیر اور اخلاق کا زیور سینے سے لگائے رکھا ہے۔ جنکے لئے ابھی بھی مالکان کی خوشنودی اور منافع سے بڑھ کر ملک و قوم کے حقیقی سُلگتے مسائل ہیں۔صحافت کی اس زبوں حالی میں ایسے صحافیوں اور قوم پرستوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوی ہے کہ وہ سیاستدانوں کے کرپشن، فوجی جرنیلوں کی زیادتیوں اور بیوروکریسی کی ستم ظریفیوں کے ساتھ ساتھ اپنی صحافتی برادری کے اس ناسور پر بھی توجہ دیں۔ اور صحافت کا مقدس اور عظیم پیشہ جو کہ اب ہمارے ملک میں ایک منافع بخش تجارت بن چکا ہے۔اسکی ڈوبتی نیا کو سہارا دینے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ دے کر قوم کو بے نتیجہ بلکہ کچھ بے ہودہ ٹاک شوز سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ بہت جلدوہ وقت آئے گاکہ قوم کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہماری صحافتی برادری کو بھی قوم اپنا مجرم اور گنہگار تصور کرے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے