بھٹو کیوں زندہ ہے؟

ذوالفقار علی بھٹو شہید کی غریب نوازی اور عوام دوستی اکتسابی نہیں جبّلی تھی- اُنہیں غریبوں سے محبت اپنی غریب ماں سے مامتا میں ملی تھی –

صدرجنرل محمد یحیی خان کے دورِحکومت میں الیکشن مہم کے دوران اُن پر بار بار رکیک حملے کیے گئے- یوں تو سانگھڑ اور ملتان میں اُن پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے اور پیر آف مکھڈ کے سے سیاستدانوں کی طرف سے دھمکیاں بھی موصول ہوتی رہیں کہ : ’خبردار جو میرے حلقہء انتخاب میں قدم رکھا تو پھر واپس نہ جا سکو گے- میرے نشانچی پیر پگاڑا کے نشانچیوں کی مانند نالائق نہیں ہیں-‘

مگر رکیک ترین حملہ ہفت روزہ’’ زندگی ‘‘ کی وہ متعفن تحریر تھی جس میں بھٹو صاحب کی والدہ مرحومہ پر الزامات عائد کیے گئے تھے-

جس روز یہ تحریر شائع ہوئی تھی اُس سے اگلے روز بھٹو شہید نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک زبردست جلسہء عام سے خطاب کیا تھا- اِس خطاب کے بعد راولپنڈی ہی کے ہوٹل فلیشمینز میں پارٹی کے چند سرکردہ ترین رہنما اور دو ایک صحافی جمع ہوئے- یہاں مجلہ ’’زندگی‘‘ کی یہ تحریر زیرِ بحث آئی- بات غیض و غضب سے شروع ہوئی اور خاموشی پر آ تمام ہوئی- فیصلہ ہوا کہ اِس تحریر کا بہترین جواب خاموشی ہے- ایسے میں بھٹو صاحب نے اپنی آنسوؤں میں ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اپنے ایک سائنٹیفک سوشلسٹ ساتھی کو دیکھا اور یوں مخاطب ہوئے : ’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غریبوں سے میری محبت ایک سیاسی چال ہے اُنہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میری ماں بہت غریب تھی -‘ اِس پر خاموشی چھا گئی اور اِسی خاموشی میں یہ محفل برخاست ہو گئی-

جناب شاہد جتوئی نے اپنی ایک حالیہ تحریر بعنوان ’’بلھیا کی جاناں میں کون!‘‘ میں بھٹو شہید کی غریبوں اورزیردستوں کے ساتھ محبت اور یگانگت کے متعدد واقعات بیان کیے ہیں- اِس تحریر کا آغاز مضمون نگار کے درج ذیل تجربے اور مشاہدے سے ہوتا ہے:

’’18-اکتوبر2007 کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو 8 سال کے بعد واپس آئیں تو کراچی میں ان کا استقبال کرنے کے لیے اُمڈ آنے والے انسانی سمندر میں ایک شخص ایسا بھی تھا، جو ننگے پاؤں چل رہا تھا- اس سے کسی نے پوچھا کہ تم جوتا کیوں نہیں پہنتے ہو۔ تو اس نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر دکھائی- یہ ایک عجیب و غریب تصویر تھی- ذوالفقار علی بھٹو ایک بچے کا ہاتھ تھامے ننگے پاؤں چل رہے تھے- بچہ بھی ننگے پاؤں تھا- شلوار قمیض میں ملبوس بھٹو صاحب کا گریبان کھلا ہوا تھا اور سر پر جناح کیپ تھی- اس شخص نے بتایا کہ یہ تصویر والا بچہ میں ہوں- میں غریب تھا، میرے والدین مجھے جوتا نہیں دلا سکتے تھے- ایک دن میں لاڑکانہ کی گلی میں ننگے پاؤں جا رہا تھا کہ بھٹو صاحب نے مجھے دیکھا- وہ گاڑی سے اُترے، اپنا جوتا اُتارا اور میری انگلی پکڑ کر بہت دُور تک سخت دھوپ میں میرے ساتھ چلتے رہے اور مجھ سے باتیں کرتے رہے-آج میں ان کی بیٹی کے استقبال کے لیے آیا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جوتے نہیں پہننے چاہیئیں- میں جب بھی ننگے پاؤں چلتا ہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شہید بھٹو میرے ساتھ چل رہے ہیں- یہ صرف ایک واقعہ ہے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آخر تھے کون؟ ‘‘

جناب شاہد جتوئی اِسی نوعیت کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد اپنے اِس سوال کا خود ہی یوں جواب دیتے ہیں کہ : ’’میاں سلطان محمود کے لیے چواین لائی کو روکنے اور جمعہ فقیر کے لیے شہنشاہِ ایران کے قافلے کو روکنے کی بات صرف عوام سے سچا عشق کرنے والوں کی سمجھ میں آ سکتی ہے- اُسی پر عشق سجتا ہے جو اندر سے قلندر ہو- ‘‘ جتوئی صاحب کے اِس جواب سے مجھے یاد آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہی ہمارے وہ سیاسی ہیرو ہیں جنہوں نے قلندروں کے نعرہء مستانہ’ دما دم مست قلندر‘ کو انقلابی سیاست کا جلی عنوان بنا دیا تھا- یہ اتفاق گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے کہ مصور پاکستان علامہ اقبال نے بھی ہمیشہ خود کو قلندر کہنا پسند کیا اور اپنے قلندرانہ فکر و احساس کو ایک نعمتِ خداوندی سمجھا:

نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

بابائے قوم محمد علی جناح نے بھی قلندرانہ شان کے ساتھ ہمیشہ برطانوی استعمار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق گوئی و بیباکی کا حق ادا کیا – قوم سے کچھ لینے کی بجائے اپنا سب کچھ قوم پر نچھاور کر دیا – شہیدِ ملت لیاقت علی خان ایک بڑے جاگیردار خاندان کے چشم و چراغ تھے- یو پی ہی نہیں پنجاب میں بھی اُن کی جاگیریں تھیں۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اُنہوں نے نہ تو اپنے لیے زرعی اراضی کا کوئی کلیم داخل کیا تھا اور نہ ہی بھارت میں رہ جانے والے محلّات کی بنیاد پر اپنے لیے مکان کے حصول کا کوئی دعوی کیا تھا- وہ پاکستان کے غریب عوام سے نسبت کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھنے لگے تھے- لعل شہباز قلندر کے عقیدت مند ذوالفقار علی بھٹو بھی دولت کے حصول کو اپنی سیاسی لغت سے غائب سمجھنے پر نازاں تھے- جب روزنامہ ’’مساوات‘‘ کا ڈیکلریشن فارم اُن کی خدمت میں دستخط کے لیے پیش کیا گیا تو وہ اُسے پڑھ کر حیرت زدہ رہ گئے- پوچھا :
Hanif! who told you that I am a business man اِس پر محمد حنیف رامے نے معذرت کی : سر !فارم پُر کرتے وقت میں نے آپ کے نام کے سامنے Occupation کے خانے میں بزنس مین لکھ دیا تھا- خانہ پُری کرتے وقت ، جلدی میں ، مجھے یہی سُوجھا تھا- اِس پر بھٹو شہید نے سُرخ قلم سے بزنس مین کا لفظ کاٹ کے ایڈووکیٹ کا لفظ لکھ دیا-

یہاں مجھے وزیرِ اعلی محمد حنیف رامے کے دور میں منڈی یزمان کا ایک واقعہ یاد آنے لگا ہے- بھٹو شہید پیپلز پارٹی بہاولپور کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے- پارٹی کارکنوں نے آپس کی بحث و تکرار کے دوران ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی- اِس مضحکہ خیز صورتِ حال میں وزیراعظم بھٹو کے نیول اتاشی، جناب عبدالقادر حئی کے ہونٹوں پر ایک حقارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی جس کا نوٹس صرف بھٹو صاحب نے لیا –

اجلاس ختم ہونے کے چند منٹ بعد قادر حئی صاحب حیران پریشان رامے صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ’’ میری توچھٹی ہو گئی ہے-‘‘ یہ خبر ہم سب کے لیے انتہائی حیران کُن تھی- اِس لیے کہ عبدالقادر حئی ایک بہت شائستہ ، بڑے مہذب اور ہردلعزیزنیول اتاشی تھے- وہ خود بھی حیران تھے کہ اُن سے کیا جرم سرزد ہوا ؟ رامے صاحب فورا بھٹو صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے – فقط چند لمحے بعد واپس لوٹ آئے اور بتایا کہ پارٹی کارکنوں کی باہمی بحث و تمحیص کے دوران جب نوبت تُو تُو میں میں پر آئی تو اُس وقت آپ کے ہونٹوں پر اُن کارکنوں کی تحقیر کا تاثر اُبھرا اور ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودارہوئی – بس یہی آپ کا جرم ہے –

بھٹو صاحب کا کہنا یہ ہے کہ میرے سٹاف میں کوئی ایسا شخص نہیں ہونا چاہیے جو غریب ، ناخواندہ یا نیم خواندہ کارکنوں کو حقیر سمجھتا ہو- ہمیں یہ عزت اِن ہی غریبوں نے بخشی ہے۔ اِس لیے ہمیں ہرحال میں اُن کا احسان مندرہنا چاہیے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے