یحیٰ عیاش کون تھا؟

آج عظیم فلسطینی مجاہد یحیی عیاش کا یوم شہادت ہے. یحیی کو غاصب اسرائیلی قوم ملک الموت سمجھتی تھی، اسی بنا پر دشمن نے انہیں انجینئرِ موت کا لقب دیا. یحیی فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری بازو عز الدین قسام بریگیڈ کے مشہور ترین کمانڈر اور فلسطین میں غاصبوں کے خلاف جدید انداز کے بم دھماکوں اور فدائی حملوں کے موجد شمار ہوتے ہیں.

یحیی عیاس 6 مارچ 1966ء کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کے قصبے رافات (صوبہ سلفیت) میں پیدا ہوئے. یحیی نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ دینی اور مزاحمتی سوچ کا حامل تھا، اس لیے یحیی بچپن سے ہی دین اور جہاد کی راہ کے دل دادہ تھے. انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا اور بنیادی دینی تعلیم حاصل کی. اسکول میں ہمیشہ تمام طلبہ سے ممتاز رہے اور پہلی پوزیشن حاصل کرتے رہے. یحیی 1993ء میں بیر زیت یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئر بن کر نکلے اور اپنی شہادت کے دن تک مزاحمتی کارروائیوں میں مصروف رہے.

یحیی عیاش کا اسلام پسند مزاحمت کاروں سے تعلق 1984ء میں اس وقت قائم ہوا جب یحیی بیر زیت یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے داخل ہوئے. 1985ء میں رام اللہ میں قائم اخوان المسلمون کی شاخ سے وابستہ ہوگئے اور اپنی کار جو والد نے انہیں دی تھی، دینی اور تبلیغی کاموں کے لیے وقف کردی. یحیی نے اس دوران دعوت دین کے لیے انتھک محنت کی جس کے باعث وہ اپنے رفقا میں ممتاز ہوگئے.

یحیی عیاش کی عسکری زندگی کی ابتدا انتفاضہ اولی کے دوران 1991ء میں ہوئی. اب یحیی حماس اور قسام بریگیڈ سے وابستہ ہوچکے تھے. اس دور میں دھماکا خیز مواد ملنا نہایت مشکل تھا. یحیی نے عام اشیائے ضرورت اور طبی مواد سے دھماکا خیز مواد بنانے کا حل تلاش کیا جس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے ایک نیا رخ لیا.

یحیی نے اپنی پہلی عسکری کارروائی 20 نومبر 1992ء کو انجام دی. اس کارروائی میں انہوں نے تل ابیب کے علاقے رامات افعال میں دھماکے کے لیے بارود سے بھری کار تیار کرکے کھڑی کی، تاہم صہیونی دشمن نے سڑک کنارے کھڑی اس کار میں نصب بم کو ناکارہ بنا دیا. اسرائیلی خفیہ ایجنسی شاباک نے اس سلسلے میں تحقیقات کی تو جو نام سامنے آیا وہ یحیی عیاش تھا، جس کے باعث وہ اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہوگئے اور روپوشی کی زندگی گزارنے لگے.

1992ء میں یحیی نے اپنے تینوں دیرینا جہادی رفقا زاہر جبارین، علی عثمان عاصی اور عدنان مرعی کے ساتھ مل کر دشمن کے خلاف بھرپور عسکری کارروائیوں کی تیاری کی اور اس حوالے سے اپنے اہداف اور لائحہ عمل طے کرلیا. اپریل 1993ء میں اسرائیلی فوج اور حساس اداروں نے ان کے گھر پر دھاوا بولا، جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئے.

یحیی عیاش نے پہلی بڑی کامیاب کارروائی 6 اپریل 1994ء کو انجام دی. یہ ایک خودکش کار بم حملہ تھا جو رائد زکانہ نامی مجاہد نے عفولہ شہر کے ایک بس اسٹاپ پر کیا. اس حملے میں 3 فوجیوں سمیت 8 صہیونی مارے گئے، جب کہ کم از کم 300 زخمی ہوئے. یہ الخلیل کی مسجد ابراہیمی میں مسلمانوں کے قتل عام کا ردعمل اور بدلہ تھا.

عیاش نے دوسری بڑی کارروائی اگلے ہی ہفتے 13 اپریل 1994ء کو خضیرہ شہر میں انجام دی. اس کارروائی میں عمار عمارنہ نامی مجاہد نے اپنے جسم پر بندھی بارودی جیکٹ ایک اسرائیلی بس میں اڑا دی. اس کارروائی میں 7 صہیونی ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے. اس کارروائی نے اسرائیلی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا.

یحیی نے تیسری کارروائی تل ابیب میں کی. 19 اکتوبر 1994ء کو جسم پر بارودی جیکٹ پہنے قسام کے مجاہد صالح نزال نے شاہراہ دیزنگوف پر ایک بس میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا. اس حملے میں 22 اسرائیلی ہلاک اور 40 زخمی ہوئے. اس کارروائی کے بعد تو اسرائیل میں آگ لگ گئی. صہیونی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے احتجاج شروع کردیا. اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن دورہ ادھورا چھوڑ کر فورا برطانیہ سے واپس آگیا. اسرائیلی فوج نے یحیی کے قصبے رافات کا مکمل محاصرہ کرلیا اور حماس کے گرفتار کارکنوں پر وحشیانہ تشدد کیا کہ شاید یحیی کا سراغ مل جائے، لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا. اسرائیلی فوج کے سربراہ اور اعلی عہدے داران سے پارلیمان سمیت جہاں بھی سوال کیا جاتا کہ یحیی عیاش کہاں ہے؟ تو وہ نہایت شرمندگی سے جواب دیتے کہ ہمیں اس کا سراغ نہیں مل رہا، تاہم ہم جلد اس تک پہنچ جائیں گے.

یحیی کا اگلا ہدف اسرائیلی فوجیوں کی ایک بس تھی. اس کارروائی میں 15 دسمبر 1994ء کو قسام کے خفیہ مجاہد اور فلسطینی پولیس اہل کار اسامہ راضی نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی فضائی دفاع کی ایک بس میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں 13 اسرائیلی اہل کار زخمی ہوئے.

اس کے ایک ماہ بعد 22 جنوری 1995ء کو حرکت الجہاد الاسلامی کے 2 فدائیین نے بیت لید میں اسرائیلی فوجیوں کے ایک بس اسٹاپ کو نشانہ بنایا. اس حملے میں 23 فوجی ہلاک اور 40 زخمی ہوئے. یہ یحیی عیاش کی سب سے خطرناک کارروائی شمار کی جاتی ہے.

اسی طرح 24 جولائی 1995ء کو تل ابیب کے قریب رامات غان میں ایک فلسطینی مجاہد نے بس کے اندر بم بار حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 6 صہیونی ہلاک اور 333 زخمی ہوئے.

اس کے بعد 21 اگست 1995ء کو مقبوضہ بیت المقدس کی یہودی کالونی رامات اشکول میں ایک فلسطینی بم بار نے بس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 5 صہیونی ہلاک اور 100 دیگر زخمی ہوئے.

ان کارروائیوں نے اسرائیلی حکومت، فوج، پولیس اور حساس اداروں کی نیندیں اڑا دیں. ان تمام کارروائیوں میں ایسے شواہد ملے جن سے پتا چلتا تھا کہ ان کا مرکزی کردار اور منصوبہ ساز یحیی عیاش ہے. اس لیے صہیونیوں نے اسے انجینئرِ موت کا لقب دیا. اب ان تمام اسرائیلی اداروں کا ہدف صرف ایک رہ گیا تھا کہ کسی بھی طرح یحیی عیاش تک پہنچا جائے اور اسے قتل یا گرفتار کیا جائے.

بالآخر اسرائیلی خفیہ اداروں نے ٹیلی فون کال کے ذریعے یحیی کا سراغ لگا لیا جو بیت لاہیا میں اپنے ایک دوست کے ہاں روپوش تھا. یحیی اپنے والد سے کبھی کبھی وائرلیس فون پر بات کیا کرتا تھا، جو اسامہ اپنے ماموں سے مانگ کر لاتا تھا. اسرائیلی خفیہ ادارے شاباک نے اس فون میں ایک ایسی خاص بیٹری بنوا کر نصب کی جو آدھی تو بیٹری تھی، تاہم اس کے دیگر نصف حصے میں 40 سے 50 گرام بارود تھا.

جمعہ 5 جنوری 1996ء کو فجر کے بعد یحیی عیاش نے اپنے والد سے اسی فون پر بات شروع کی اور اسی دوران فضا میں موجود اسرائیلی طیارے نے فون میں نصب بم کو اڑا دیا. دھماکے کے نتیجے میں یحیی کا دایاں ہاتھ اور چہرے کا دایاں حصہ شہید ہوگیا، اور یوں فلسطین کا ایک طلسماتی مجاہد ابدی نیند سو گیا. یحیی کی نماز جنازہ غزہ میں ہی ادا کی گئی جس میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینیوں نے شرکت کی. فلسطین کے تمام ہی شہروں میں مظاہرے ہوئے. جب کہ اسرائیل بھر میں جشن منایا گیا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے