چین اور عالمی معیشت

یورو ایشیا دنیا کے کل رقبے کا 36.2فیصد ہے اور یہ دو لاکھ دس ہزار مربع میل رقبہ ہے، جہاں 5ارب سے زائد آبادی ہے اور یہاں انسانی آباد کاری کے آثار 60ہزار سال پرانے ہیں اور بعض روایات کے مطابق ایک سو پچیس ہزار سال سے انسان اس خطے میں آباد ہیں ، جس میں برطانیہ سمیت جاپان ، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ممالک شامل ہیں ، قدیم دور میں یورپ اور ایشیا ایک ہی بر اعظم شمار کیے جاتے تھے ۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ چین اس وقت دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ،ہم پاکستانی یہ سمجھ رہے ہیں کہ چین صرف پاکستان میں 46ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ،مگر ایسا ہرگز نہیں ہے ،چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013میں قازقستان کا دورہ کیا اور انہوں نے وہاں اس بات کا اعلان کیا کہ پرانے سلک روٹ کو ا ب فنکشنل کرنے کی ضرورت ہے اور ایک بار پھر یورو ایشیا کی بنیاد رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔

بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چینی صدر نے 2014میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر دھرنے کے باعث وہ 2015میں پاکستان آئے اور پاکستانی حکومت سے گفت وشنید کے بعد پاکستان میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی حامی بھری ۔

چین پوری دنیا میں اربوں ڈالر ز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 61ایسے ممالک ہیں جہاں چین براہ راست سرمایہ کاری کر رہا ہے ، چین نے بھارت میں بھی اپنی سرمایہ کاری کو بڑھایا ہے اور صرف سال 2015میں 870ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور اس وقت چین 1.24بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری بھارت میں کر رہا ہے ۔

اکثر یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ آخر چین اتنے بڑے پیمانے پرپوری دنیا میں سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے ؟

اس کا جواب نہایت آسان ہے ، 2014کے آخر میں چین کی آمدنی 4ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرچکی تھی تبھی چین کے ماہرین معیشت نے چین کو ترقی پزیر ممالک میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیا جس سے چین کو دو فائدے ہوئے ایک تو اس کا پیسہ استعمال ہوا اور دوسرا جہاں چین کا پیسہ استعمال ہوا وہیں چین کا لیبر یعنی مزدور بھی استعمال ہوا اور اب چین پوری دنیا کو بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے رابطہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ میڈان چائنا کو پھیلا بھی رہا ہے ۔

اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے اپنے ایک مشرقی صوبے سے برطانوی دارالحکومت لندن تک کے لیے پہلی مال بردار ٹرین سروس کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مال بردار ریل گاڑیاں چین میں ڑی وْو سے لندن تک کا بارہ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ اٹھارہ دنوں میں طے کیا کریں گی۔

جو چین کا بڑے پیمانے پر تجارتی ساز و سامان کی خریداری کے لیے ایک مشہور شہر ہے۔شنہوا نے لکھا ہے کہ ایسی کارگو ٹرینیں چین سے برطانیہ تک ساڑھے سات ہزار میل (7500) یا بارہ ہزار (12000) کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ 18 دنوں میں طے کیا کریں گی اور اس دوران برآمدی یا درآمدی ساز و سامان سے لدی یہ چینی ریل گاڑیاں قزاقستان، روس، سفید روس، پولینڈ، جرمنی، بیلجیم اور فرانس سے گزرتی ہوئی برطانیہ پہنچا کریں گی۔

سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی سطح پر اس وقت لندن کے کئی اتحادیوں کو حیران کر دینے کا باعث بنے تھے، جب انہوں نے اس بات کی وکالت کی تھی کہ برطانیہ مغربی دنیا میں چینی سرمایہ کاری کی خاطر بیجنگ کے لیے مرکزی دروازہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی طرح ماضی میں کمیرون نے، جب وہ ابھی لندن میں سربراہ حکومت تھے، یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ چین سے باہر چینی کرنسی یوآن کی خرید و فروخت کے لیے لندن کو سب سے بڑا بین الاقوامی تجارتی مرکز بنایا جانا چاہیے۔چین نے دو سال پہلے اپنے شہر ڑی وْو سے ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ تک کے لیے بھی ایک کارگو ٹرین سروس شروع کر دی تھی،برطانوی حکومت یہ چاہتی ہے کہ اب جب کہ لندن یورپی یونین سے اپنے اخراج کی تیاریوں میں ہے، چین کو برطانیہ میں اربوں ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔چائنہ ریلوے کارپوریشن کے مطابق ڑی وْو سے لندن تک اس چینی کارگو ٹرین سروس کا رسمی آغاز نئے سال کے پہلے دن کیا گیا ۔

اور یہ بات یہیں ختم نہیں بلکہ چین اس وقت بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے اور یہ ٹرین اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، اور اسی طرح چین نے 5اکتوبر 2016کو جبوتی اور ایتھوپیا کے درمیان براعظم افریقہ کی پہلی کراس بارڈر الیکٹریکل ٹرین کا آغاز کیا ،اور 750کلومیٹر ریلوے ٹریک اسی مقصد کے لیے بنایا اور یہ ٹرین 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے اور یہ راستہ جو کہ تین سے چار دن کا تھا اب محض گھنٹوں تک سکڑ گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے