مولاناضیاء القاسمی،ایک عہدآفرین شخصیت

صبح ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ شام کچھ زیادہ دور نہیں،موسم بہار حقیقت میں خزاں ہی کا پیش خیمہ ہے لیکن کچھ صبحیں ایسی بھی تابناک ہوئی ہیں جن کے باعث تیرہ وتار شامیں بھی روشن ہوگئی ہیں،اس اجڑے ہوئے گلشن میں کچھ بہاریں ایسی بھی آئی ہیں جواپنی مہک سے اپنے بعد آنے والی خزاؤں تک کو معطر کر گئی ہیں۔اور بلا شک و شبہ کچھ جانے والے ایسے بھی آئے ہیں جو نظروں سے دور ہو جانے کے بعد بھی دل سے قریب ہیں

آفتاب رشدو ہدایت،مجدّدِ خطابت،مخدوم العلماء،خطیب اسلام حضرت اقدس مولانا محمدضیاء القاسمی نورللہ مرقدہ امت مرحومہ کے انہی گنے چنے افراد

علامہ ضیاء القاسمی
علامہ ضیاء القاسمی

میں سے ہیں جو دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی آج تک دلوں سے نہ جا سکے اور نہ شاید کبھی جاسکیں،کیونکہ ایسے با عظمت و ہمت،دینی تڑپ رکھنے والے افراد پرقدرت کی طرف سے بیک وقت دو موتیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ان کے مواعظ و تقاریر،سوزو گداز اورعالم اسلام کو درپیش کسی بھی مسئلہ پر ان کے بے چین ہوجانے کا تابناک کردار،ان کے نام ِ نامی کو،ان کی سیرت مبارکہ کو،ان کے افعال وکردار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔جس کے مقدر میں کاتب ِ تقدیر نے دو موتیں نہ لکھی ہوں اور جس کی ظاہری موت اس کی قابل تقلید حیات کا ایک نیا دور شروع کر رہی ہو۔

مولانا محمد ضیاء القاسمی نے 1937ضلع جالندھر میں بزرگ عالمِ دین مولانا عبد الرحیم کے گھر آنکھ کھولی،جو اپنے علاقہ میں احیاء دین کا کام کرتے تھے،ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا دین کی تعلیم حاصل کرے،انہوں نے اپنے ہونہار فرزند کوگھر میں قرآن مجید اور عربی،فارسی کی ابتدائی کتب خود پڑھائیں۔ابھی دس سال کے تھے کہ قیام پاکستان اور ہجرت کے ہنگاموں میں والد گرامی جالندھر کیمپ ہی میں وفات پاگئے۔معصوم اور مہاجر بچوں کوکیا علم تھا کہ یتیمی کیا ہوتی ہے۔ والدہ محترمہ ان یتیم بچوں کو لے کربیوگی کے عالم میں فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے قریبی گاؤں 474 گ،ب میں اپنے عزیزوں کے پاس پہنچ گئی۔اور مولانا کو گاؤں کے پرائمری سکول میں داخلہ دلوا دیا،پرائمری پاس کی تو والدہ محترمہ نے مرحوم شوہرکی خواہش کی تکمیل کے لئے ہونہار بیٹے کودینی تعلیم کے لیے مدرسہ اشاعت العلوم فیصل آبادمیں داخل کروادیا۔

ذہین و فطین تھے جلد ہی اساتذہ میں معروف ومقبول ہوگئے،دوران تعلیم ہی تقریر کا منفرد انداز تھا،مدرسہ کے مہتمم مفتی سیاح الدین کاکاخیل ؒبہت پسند فرماتے اور دوران تدریس اکثر تقریر سنتے اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے۔مدرسہ کے اساتذہ حج بیت اللہ کی سعادت کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو مولانانے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں داخلہ لے لیا،جامعہ میں اپنی تعلیم مکمل کر کے دورہ حدیث کے لیے مدرسہ قاسم العلوم ملتان تشریف لے گیے وہاں محدث ِ جلیل حضرت مولانا عبد الخالق ؒ اور مفتی محمود ؒ جیسے اساتذہ سے دورہ حدیث مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی۔

1956میں دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد وقت کے سب سے بڑے سیاسی ودینی رہنماشیخ العرب والعجم السید حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی زیارت اور بیعت کے لیے دیو بند بھارت کا سفر کیا،دو ہفتہ تک حضرت مدنی ؒ کی خدمت میں سلوک اور طریقت کی منازل طے کرتے رہے۔اس نسبت سے طبعیت سے مداہنت جاتی رہی،جرأت وشجاعت،اورحق وصداقت ساری عمر شعار رہا۔

حضرت قاسمی ؒ نے تحصیل علم کے بعد جب فیصل آباد میں وعظ وتبلیغ کا آغاز کیا تو اس وقت یہاں دین حق کا تصور بڑی حد تک شرک وبدعت پر مبنی رسوم وروایات میں گم ہو چکا تھا۔مسلم عوام قرآن وحدیث سے کم اور پیروں فقیروں کی کرامات،”کچی پکی روٹی“،”ہیر رانجھا“اور”سیف الملوک“سے زیادہ واقف تھے۔حضرت صاحب نے خوش بیانی سے دلوں کو اور قرآن وحدیث پرمبنی عمدہ استدلال سے ذہنوں کو مسخر کیا۔

اگر مجدّدِیت میں تجزّی مان لی جائے تو میں حضرت اقدس مولانا ضیاء القاسمی ؒ کواس دور کا مجدّدِخطابت کہوں گا۔آپ ؒصرف خطیب ہی نہیں بلکہ خطیب گر تھے،خطابت ہی نہیں،بلکہ فن ِخطابت میں بھی آپ کی ذات ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔حضرت صاحب ؒکی صحبت سے کئی ایک خطیب بنے۔ آپ کی خطابت میں سحر کی سی کیفیت ہوتی تھی۔ حضرت صاحب ؒ کی تقاریر جہاں عوام کے قلوب واذھان کو جِلابخشتی تھیں ……وہیں خطباء اور مقررین کے لیے اپنے اندر کئی ایک مضامین سموئے ہوتیں تھیں۔ خطباء نے صرف آپ ؒ کے اندازخطابت ہی نہیں، بلکہ لباس، ٹوپی اور عینک تک کو بھی کاپی کیا۔ بقول مولانا عبدالرشید ارشدؒ ’’سات آٹھ ایسے خطباء کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔“

حضرت صاحب ؒنے اپنی جرات وغیرت سے بھر پورخطابت کے ذریعہ صرف فیصل آباد،پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں توحید ورسالت اور مدح صحابہ ؓ کی شمعوں کو روشن کیے رکھا،تحفط ختم نبوت ان کا خاص موضوع ہوا کرتا تھا، حضرت صاحب ؒایک سچے عاشقِ رسول وصحابہ اور کڑی سے کڑی آزمائش میں بھی کھری بات کہنے سے نہ رکنے والے انسان تھے۔

آپ نے دنیا بھر میں رسول رحمت ﷺکے ”پرچم امن“اور عظمت صحابہؓ کے جھنڈے کو سر بلند کیے رکھا،برطانیہ،امریکا،کینیڈا،مصر، جرمنی،فرانس،ناروے،بنگلہ دیش،ہندوستان،عراق،سعودی عرب اورعرب امارات میں آپ نے توحید،پیغمبر اسلام ﷺکی عظمت،ختم نبوت اور مدح صحابہؓ کواپنی دلرباء خطیبانہ آواز میں پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔جس سے متاثر ہو کر سینکڑوں غیر مسلم اسلام کی دولت سے مالاما ل ہوئے اور وہ آج بھی دین کی محنتوں میں مصروف ہیں۔

آپ امت ِ محمدیہ کے حالات سے آگاہ اور سیاسی اونچ نیچ تک سے با خبر رہتے تھے اورمسلمانوں کی فلاح کے ہر کام میں امکان بھر معاون و مدگار رہتے تھے۔حضرت بڑے مصلحت پسند اور صلح جو انسان تھے مگر حق وباطل کے اظہارمیں بڑے باہمت وبیباک تھے۔ مگروفور جذب و عشق کے باوجود ہو شمند ایسے کہ اچھے اچھے عقلاء ان کی اصابت رائے کے معترف تھے۔

حضرت صاحب ؒ فتنہ فساد کے اس دور میں،جبکہ امت مسلمہ دینی تنزل اور انحطاط کا شکارہے،جہاں تعلیم وتدریس اور وعظ وارشادکی نمایاں خدمات سرانجام دے رہے تھے وہاں آپ نے عملی سیاست میں بھی قدم رکھا اور سیاسی آلائشوں سے پا ک رہ کر ایک قابل قدر اور محرک کردار ادا کیا۔اور مختلف ادوار میں بطور،سیکرٹری جنرل جمعت علماء اسلام پنجاب مفتی محمود صاحب کی قیادت میں، سیکرٹری جنرل سواد اہل سنت پاکستان،سیکرٹری جنرل مجلس ختم نبوت پاکستان،مرکزی نائب صدر انٹرنیشنل ختم نبوت ورلڈ،چیئرمین سنی سپریم کونسل پاکستان،کے پلیٹ فارم سے اسلام کی اشاعت کے لیے تاریخ ساز جدو جہد کی۔

آپ اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے اگرچہ تصنیف وتالیف کی طرف توجہ نہ دے سکے لیکن پھر بھی اپنے قیمتی اوقات میں سے چند لمحات نکال کر”خطبات قاسمی چھ جلدیں“ جس کے متعلق حضرت فاروقی شہیدؒ لکھتے ہیں کہ”قاسمی صاحب نے اپنے جگر کے سارے ٹکڑے اس میں جمع کر دیے ہیں“۔”امیر عزیمت شہیدؒ کی حیات وخدمات“، اور چند دیگر رسائل آپ کی تصنیفی قابلیت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔

حضرت صاحب ؒسے کوئی طالب علم یا خطیب مطالعہ کے لیے کسی کتاب کا پوچھتا،تو فرمایا کرتے تھے قرآن کا مطالعہ کرو،قرآن مقدس کی مثال دریا کی سی ہے جس طرح دریاکو اپنا راستہ بنانے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں پڑتی اسی طرح قرآن مجید بھی اپنا راستہ خود ہی بناتارہتا ہے۔قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے زندگی بھرنمازفجر کے بعد درس قرآن سلسلہ جاری ہے۔

حضرت صاحبؒ کی گوناگوں اور متنوع دینی خدمات کو اللہ تعالیٰ نے حسن قبول عطا فرمایااور بے شمار بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دی۔وہ ان سے قربت وتعلق ہی نہیں محسوس کرتے بلکہ ان کے شیفتہ اور گرویدہ ہیں۔ان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 29دسمبرکو 16سال پورے ہو جائیں گے۔مگرآپ کی روحانی وحقیقی اولادکی تبلیغی کوششیں اورآپ کے جاری کردہ علم وادب کے شیرین چشمے اب بھی انسانیت کی دینی و علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔اور اب صاحبزادہ حضرت مولانا زاہد محمود قاسمی صاحب(ممبراسلامی نظریاتی کونسل)نے ایک قدم آگے بڑھ کر جامعہ قاسمیہ میں شعبہ بنات اور گول جامع مسجدسے متصل پبلک لائبریری اور قاسمیہ ڈگری کالج برائے خواتین،ختم نبوت ریسرچ سنٹرقائم کر کے اس کار خیرکو جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ سب سلسلے حضرت صاحب کے لیے ذخیرہ آخرت ثابت ہوں گے۔(انشاء اللہ)۔

ikramulhaqch4@gmail.com

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے