اجتہادات اور شریعت

انسانی اجتہادات اور شریعت خداوندی کے بیان میں یکساں اصطلاحات کا غلط استعمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی اجتہادات اور بیانِ شریعت میں یکساں اصطلاحات کا استعمال خدا پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ فتوی کی زبان میں فروعی مسائل (یعنی وہ مسائل جن کا ذکر قرآن و حدیث میں نہ ہو) کے احکامات کے بیان کے لیے شرعًا حلال یا شرعًا حرام اور قطعًا جائز اور ناجائز جیسے الفاظ کااستعمال اہل افتاء کے ہاں عام دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسا ہی حال دیگر اہل علم کا بھی ہے جو کسی بھی فروعی مسئلے یا منصوص مسئلے کی اطلاقی حیثیت کا بیان ایسے لہجے، الفاظ اور اصطلاحات میں کرتے ہیں جو قطعیت کی حامل ہوتے ہیں، لیکن درحقیت وہ براہِ راست دینی حکم نہیں ہوتا، جو درحقیقت قطیعت رکھتا ہے۔

‘شرعًا’ اور ‘قطعاً’ جیسے الفاظ شریعت کے منصوص احکامات (یعنی جو احکامات قرآن و سنت میں بیان کر دیے گئے ہیں) کے بیان کے لیے مخصوص ہونے چاہیے۔ فروعی مسائل کا حکم تو علماء اور فقہاء کا ذاتی و شخصی فہمِ دین و شریعت ہوتا ہے، جو خطا کا احتمال رکھتا ہے۔ اس ذاتی فہم پر شرعًا اور قطعًا جیسے الفاظ کا اطلاق کیسے درست ہو سکتا ہے؟
مستنبط مسائل، جن میں فقہاء کا انسانی فہم شامل ہو جاتا ہے اسے الگ الفاظ اور اصطلاحات سے بیان کیا جانا چاہیے، تاکہ عام آدمی بھی جان لے کہ ان احکامات کا درجہ خدا اور رسول کے بیان کر دہ احکامات کے برابر نہیں، یہ محض خدا کا منشاء متعین کرنے کی انسانی کوشش کا نام ہے، جس میں خطاء کا احتمال موجود ہے۔

یہ بات اصول میں تو مانی جاتی ہے لیکن شریعت اور فقہ کے لیے ایک جیسے الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال عام لوگوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اہل علم کے لیے بھی التباس کی وجہ بھی بنتا ہے اور ان کے فہم دین پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلًا حدود آرڈینیس کے ساتھ ایسا ہی رویہ دیکھنے میں آیا۔ حدود آرڈینینس میں حدود اللہ کی تعریف، جرم کے ثبوت، تعزیرات اور سزاؤں پر عمل در آمد میں پولیس، جج اور جیل کے مراحل اور پروسیجر کے مسائل کے بیان میں بہت کچھ انسانی فہم شامل تھا، لیکن ہر چیز کو اللہ اور رسول کا قانون باور کرا دیا گیا۔ جس سے حدود آرڈینیس میں پائے جانے والے سقم اور نقائص پر بات کرنا عوام تو کجا علماء کے ہاں بھی ممنوع قرار پایا، گویا یہ سارا کے سارا شریعت ہی ہے۔
جہاں تک فروعی احکامات کا تعلق ہے تو ہم جانتے ہیں کہ ان میں فقہاء کی آراء میں اختلاف ہوتا ہے، نیز، وقت کے ساتھ ان احکامات میں تبدیلی بھی آ جاتی ہے۔ لیکن ان کو منصوص مسائل والی اصطلاحات، یعنی ‘شرعی’ او ‘قطعی’ حلال، حرام یا جائز اور ناجائز کی اصطلاحات میں بیان کرنے کا نقصان یہ ہے کہ فتوی جب بدلتا ہے تو پھر وہی ‘شرعی’ اور ‘قطعی’ حرام، پھر حلال بن جاتا ہے اور ‘شرعی’ اور ‘قطعی’ حلال، اب حرام بن جاتا ہے، لیکن یہ بدل جانے والا نیا حکم پھر بھی ‘شرعی’ اور’ قطعی’ حلال یا حرام بھی رہتا ہے! یہ چیز عوام کے لیے عجیب مخمصے کا باعث بنتی ہے۔ وہ سادہ لوح جو کبھی ایک چیز کو شرعا حرام برتتے ہوئے کسی دوسری رائے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور پھر کچھ عرصے بعد حرام قرار دینے والوں ہی کی طرف سے اس کے حلال ہونے کا فتوی سننے لگتے ہیں تو ان کے لیے یہ بڑا صدمہ ہوتا ہے۔

مثلًا حرمتِ تصویر کا فتوی اور اس کے ساتھ علماء کا بدلتا رویہ ہم نے اپنے دور میں خود مشاہدہ کیا۔ ماضی قریب کی بات ہے کہ تصویر اور ویڈیو بنوانا عملی طور پر ایسا حرامِ قطعی تصور کیا جاتا تھا کہ تصویر بنوانے والا دین دار اور عالِم دین درجہ ثقاہت سے گرا دیا جاتا تھا۔ مساجد میں کیمرہ لے جانا نہایت مکروہ سمجھاجاتا تھا۔ جس مولوی صاحب کے بارے میں معلوم ہوتا کہ ان کے گھر ٹی وی ہے تو لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں تردد کرتے تھے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کی تصویر یا ویڈیو خفیہ طور پر بنانے کی کوشش ہوتی تھی، اور پکٹرے جانے پر کیمرہ سلامت رہتا تھا نہ کیمرہ والے کی عزت۔ لیکن اب خود مولانا نے سارے حجاب اٹھا دیئے ہیں اور ٹی وی پر آ کر انہوں نے اپنے فیض کا دائرہ وسیع فرما لیا ہے۔ کیمرہ تو اب خطیب صاحب کے لیے کچھ ایسا ہی لازم ہوگیا ہے جیسے لاوڈ سپیکر، جو خود بھی تصویر سے پہلے حرمت سے حلؔت کا سفر طے کر چکا ہے۔

خدا نے غیر منصوص احکامات میں انسانی عقل کے عمل دخل کو گوارا ہی اس لیے کیا تھا کہ ان فروعی معاملات میں اختلاف آراء کی گنجایش رہے، جس سے انسانوں کے لیے مختلف حالات میں مختلف طرزِ عمل اختیار کرنے کی گنجائش موجود رہے، نیز، چونکہ انسانی اجتہادات مسلسل تبدیلیوں سے گزرتے ہیں، اس لیے کسی ایک دور میں ان کے بارے میں کوئی فقہی حکم یا تعبیر کو ابدی اور مستقل قرار نہ دیا جائے تاکہ بعد والوں کے مختلف حالات میں ان کے لیے تنگی کا سبب نہ بنے۔ تبدیلی قبول نہ کرنا یہ خصوصیت صرف شرعی احکام کی ہے۔ لیکن فروعی مسائل کو بھی شرعی مسائل کی طرح قطعیت سے بیان کرنے سے عام لوگ تو اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہی ہیں کہ بیان کردہ مسئلہ بھی من جانب اللہ ہی ہے، فقہ کے طلباء اور علماء میں بھی ان مسائل کے بارے میں قطعیت کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ان مسائل میں بھی اسی بے لچک پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو صرف شریعت کے غیر متبدل احکامات کے ساتھ ہی مناسب ہو سکتی ہے۔ عوام بھی آپس میں ان مسائل کے بارے میں اپنے اپنے مسلک کے فتاوٰی پر ایسی شدت دکھاتے ہیں جو صرف شرعی یعنی منصوص مسائل کے لیے روا ہے۔

فروعی مسائل کے بیان میں قطعی الفاظ کا استعمال مسلکی تعصب کی وجہ بن جاتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر فروعی مسائل کے بیان میں ایسے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کی جائیں کہ مثلًا، فلاں مسئلے کا حکم یہ ہو سکتا ہے، یا ایسا ممکن ہے یا میرے/ہمارے نزدیک اس کا حکم یوں ہے، یا میری/ہماری فہم اور تحقق کے مطابق اس کا حکم یہ بنتا ہے، تو تعصب اور غیر ضروری پختگی پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ بنیادی شرعی احکامات میں تو کوئی خاص اختلاف ہوتا بھی نہیں جو وجہ نزاع بن سکے، یہ فروعی مسائل ہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر جب قطعیت سے بیان ہونے لگتا ہے تو مسلک کی پہچان بن جاتا ہے اور مسلک سے وابستگی، شناخت کے بارے میں حساسیت پھر تعصب اور عدم برداشت تک لے جاتی ہے۔ علماء اصولی طور پر تو یہ بات جانتے اور مانتے ہیں کہ فروعی مسائل کے احکامات حتمی نہیں ہوتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سماعتیں جب ان کو حتمی لہجے اور قطعی الفاظ کے ساتھ سنتی رہتی ہیں تو ان کے ساتھ بھی ویسا ہی تاثر بن جاتا ہے جو شرعی احکامات کے لیے ہو سکتا ہے، اور یہ امرِ واقعہ ہے۔

یہ خدا پر جھوٹ باندھنے کے زمرے میں آتا ہے۔ شرعًا اور قطعاً کہ کر آپ انسانی فہم سے اخذ کردہ حِلت و حُرمت کو خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ جب کہ یہ حلت و حرمت براہ راست خدا کی طرف سے ہوتی ہی نہیں۔ اس رویے پر قرآن مجید نے بہت سخت وعید سنائی ہے، ارشاد ہوتا ہے:

"اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے (سورہ النحل آیت، 116)

فروعی مسائل میں اپنے نقطہ نظر کو ایسے الفاظ اور اصطلاحات میں بیان کرنا کہ وہ خدا کی طرف سے معلوم ہوں، دراصل یہود کے علماء، احبار اور ربّیوں کا رویہ تھا، جس پرقرآن نے سخت نکیر کی ہے:

"اُن میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو ۔ (سورہ آل عمران، آیت 78)۔

امید ہے ان معروضات پر غور کیا جائے گا اور اصطلاحات کے استعمال میں احتیاط برتی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے