قانون اندھا ہوتا ہے صاحب

قانون تو اندھا ہوتا ہے نا صاحب

یہ وطن ہمارا ہے تم ہو خواہ مخواہ اس میں ۔۔۔۔ معذرت صاحب لیکن حال کی بات یہی ہے کہ کچھ ایسا ہی حال چل رہا ہے ،شاید آپکو یہ مذاق لگ رہا ہے یا لکھاری کی کم عقلی اور کم فہمی کی دلیل نظر آرہی ہو اس جملہ میں لیکن پھر بھی غور تو کریں جناب کہیں اس جملے میں کوئی سچائی تو نہیں ، اس وقت جناب جون ایلیا سب کا وہ مصرعہ یاد آ رہا ہے ” بات نہیں کہی گئی ،،بات نہیں سنی گئی ” ہم تو اس لیے کہہ رہے ہیں کہ کہیں جون صاحب کے اس مصرع کے مصداق ہی نہ بن جائیں ،
آپ نے تو سن رکھا ہو گا کہ قانون اندھا ہوتا ہے یہ بات ایسے ہی نہیں کی جاتی وطن عزیز کے قانون دانوں سے عام انسانوں تک ہر شخص جانتا ہے کہ وطن عزیز کا قانون بھی اندھا ہی ہے ، پرانی باتوں پر نہیں جاتے کہ ایان علی ، ڈاکٹر عاصم اور پانامہ پر کیا پیش رفت ہوئی لیکن ان کیسسز نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ قانون اندھا ہوتا ہے ، صاحب ناراض نہ ہوئے گا یہ کیسسز چل رہے ہیں چلنے دیں پھر دیکھتے ہیں کس حد تک ہمارا قانون اندھا ہے ، تنقید کے نشتر چلانے اور اندھا دھند تنقید کرنے کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر خود فیصلہ نہیں دے رہے بس تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھتے رہیں ۔۔۔
خیر قانون کی جب بھی بات ہوتی ہے تو قانون کا مطلب ہوتا ہے عدل اور انصاف ، عدل عدالت سے نکلا ہے کہ جس کا جو حصہ ہو اسے ملے اور انصاف کا مطلب ہے نصف برابر تقسیم ۔۔ یہ جو برابر کی تقسیم ہے نا صاحب یہ بہت بڑا ظلم ہے غریب غربا ، عام شہریوں اور خاص کر بے ادب انسانوں کے ساتھ ۔عام انسان بے ادب اسلیے ہوتے ہیں کیوںکہ ادب کا سلیقہ تو صرف اشرافیہ کے پاس ہوتا ہے وہی ادیبوں کو جیب خرچ دیتے ہیں تاکہ ادیب لوگ انکو مودب سمجھیں اب یہ بھی نہیں کہ ہر ادیب اپنی قیمت وصول کر کے اشرافیہ کو مودب ثابت کرتا ہے ہر دور میں جالب اور سلمان جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں اور پھر ان کے حروف سے اشرافیہ کی شرافت پر حرف آ جاتا ہے اور یہ شریف لوگ پر ایسے حرف لکھنے والے کے ہاتھ اور زبان کے علاوہ بعض اوقات گردنیں بھی کاٹ دی جاتی ہیں

وطن عزیز میں دو ہی قسم کے لوگوں کو کچھ ادارے پکڑ کر لے جاتے ہیں ایک تو دہشتگردی میں ملوث ملک دشمن عناصر ، تاکہ ملک سے ان جیسے ناسوروں کا خاتمہ کر کے ملک میں امن و امان اور استحکام کی فضا کو بحال کیا جائے اور دوسرے اس ملک کے بدزبان اور بازبان لوگ معذرت چاہتے ہیں اس پر بھی کہ بد زبان کہا گیا لیکن کیا کریں صاحب سچ کو تمیز ہی نہیں بات کرنے کی اس لیے ایسا کہنا پڑا سچ تو سچ ہے نا نکلے گا تو دور تلک جائے گا اور وطن عزیز کو ایسے بدتمیز سچ بولنے والوں کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی حوصلہ ہے سچ سننے کا تو بات اتنی سی ہے کہ ایسا سچ بولنے والا بندہ جائے گا تو کہاں سیدھا جواب جیل میں اور کہاں ۔۔۔۔

اندھے قانون کی ہم نے ایسے ہی بات نہیں کر دی ،ہمارے ملک میں ایک بیلنس پالیسی بھی چل رہی ہے جس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ کوئلہ اور ہیرا ایک ہی ترازو میں تولہ جاتا ہے اور پھر کیا پوچھتے ہیں صاحب ہیرا بھی کوئلہ کے ساتھ کالا ہو جاتا ہے اور ہمارے ملک میں تو ہیرے کو اس بات پر احتجاج کرنے کی پاداش میں بھی پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے
میرے دیس کے سچے لوگوں اب کے اگر سچ بولنا ہو تو خیال رکھنا کہ کسی نہ کسی روز اٹھا لیے جاو گے آسمان کی جانب یا پھر کال کوٹھری بھیجے دئیے جاو گے اور وطن عزیز میں اس وقت سب سے بڑا جرم یہی سمجھا جاتا ہے وہ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں سچ امن و امان کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور ہمارا ملک امن و امان قائم کےلئے ایشیا کےممالک میں میں سرفہرست ہے اور سچ کے اس فتنہ کو ختم کرنے کےلئے ملک کی غیور عوام ، حکومت اور دیگر ادارے باہم متحد ہیں
ہمارے ملک میں دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے قانون پر بھی عمل جاری ہے 286 دہشتگردوں کو سزائے موت دینے کے بعد علامتی طور پر 12 کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان کو بھی گزشتہ دنوں پھانسی دی گئی ، پارک میں چہل قدمی کرنے والے جج پر فائرنگ کر کے قتل کرنے کا الزام اس نوجوان پر تب لگا جب وہ پہلے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے ۔۔۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے نا صاحب

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے