مغرب کی سازش یا …

مسلم بادشاہتوں کی دولت اور شان و شوکت اپنی جگہ، مگر عالمِ اسلام مشکلات کا شکار ہے۔ مسلم حکومتیں اندرونی کشمکش، بھوک کے شکار لوگوں کی جانب عدم توجہ، لالچ اور بیرونی طاقتوں کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تناؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب وہ شام اور یمن میں ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگوں پر اتر آئے ہیں۔ اسی وجہ سے گذشتہ سال ایرانی زائرین حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے۔ ان جنگوں نے بڑے انسانی المیوں کو جنم دیا ہے، قحط اور غربت پیدا کی ہے، اور کروڑوں لوگوں کو دربدر کیا ہے۔

ان سیاسی چالوں کا مقصد صرف خطے میں طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنا ہے، اور اس کے لیے سیاست اور مذہب کا استحصال کیا جا رہا ہے جس کا حتمی طور پر نقصان عام لوگ اٹھا رہے ہیں۔ پہلے سے تقسیم شدہ اسلامی دنیا مزید تقسیم کا شکار ہو رہی ہے۔ سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بھی فرقہ وارانہ جذبات پھیل رہے ہیں جہاں فریقین کی جانب سے مبینہ طور پر کیے گئے ظلم و ستم کی تصاویر بڑی تعداد میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں ‘شعلہ بیان’ خطیبوں کو محرم کے دوران زیادہ ‘حساس’ علاقوں میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ اقلیتوں پر بے رحم حملے معمول ہیں جن میں اکثر پاکستانی طالبان یا ان کے ذیلی گروپ شامل ہوتے ہیں، مگر کبھی کبھی دیگر گروہ بھی اس کام میں حصہ لیتے ہیں۔ نفرت پھیلانے کے لیے منبر کا استعمال عام ہے۔

صدیوں سے قرآن کے لفظی معانی پر زور، کمزور احادیث پر یقین، اور قبائلی اور مردانہ حاکمیت پر مبنی روایات نے ایک ایسے پریشان کن بیانیے کو جنم دیا ہے جس میں خود کو پارسا سمجھنے والے مولوی حضرات کی سماجی اور مذہبی خواہشات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

80 کی دہائی میں پاکستانی پالیسیوں کی وجہ سے وہ بے رحم جنونی وجود میں آئے جو اسلام کو قتل و غارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک، اور بڑھتی ہوئی داخلی دہشتگردی کی وجہ سے آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے کی نوبت پیش آئی۔

جس چیز کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، وہ جاوید احمد غامدی کے الفاظ میں ‘ضربِ فکر’ ہے، تاکہ دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کے نظریات کو شکست دی جا سکے۔ میں یہاں اس اصطلاح کا استعمال وسیع تر تناظر میں کر رہی ہوں۔

مسلم دنیا، اس کے وہ علماء اور رہنما جو مسلم سیاست اور معاشرے کے تیز رو زوال کے بارے میں سنجیدہ تشویش رکھتے ہیں، انہیں متبادل طرزِ فکر تلاش کر کے کھلی بحث کے پلیٹ فارمز تشکیل دینے چاہیئں۔ اس کام کو مقامی، ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر ہونا چاہیے۔

مقاصد میں ایسے معاشروں کا قیام شامل ہونا چاہیے جن میں برداشت اور تکثیریت پائی جاتی ہو، جیسا کہ مسلم معاشروں کو ہونا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان معاشروں کو تعلیم اور مضبوط سماجی تعلقات کے ذریعے ٹیکنالوجیکل اور اقتصادی ترقی پر بھی اپنی توجہ رکھنی چاہیے۔

اس کی جانب پہلا قدم مسائل کا تجزیہ اور ذمہ داریوں کا تعین ہے۔ ہمیں ہر چیز کا الزام مغرب کی ‘سازشوں’ پر ڈالنے کی روش چھوڑنی ہوگی۔

ممالک، بالخصوص پاکستان، کو مذہبی اختلافِ رائے کو کھلے دل سے قبول کر کے شروعات کرنی چاہیے، اور آزادیءِ اظہار کے مخالفین پر گرفت مضبوط کرنی چاہیے، نہ کہ آزادیءِ اظہار پر یقین رکھنے والوں پر۔ ماضی قریب و بعید میں ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں ایک کے بعد ایک حکومتوں نے یا تو پاکستانیوں کو خوف اور دہشت میں مبتلا کرنے والے گروہوں کی یا تو حوصلہ افزائی کی، یا پھر ان کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

بلند پایہ عالمِ دین فضل الرحمان کو 1960 کی دہائی میں قرآن شریف پر اپنے تاریخی کام کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا۔ کئی ایسے مسلمان جو مذہبی معاملات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں، ‘مرتد’ اور ‘گستاخ’ کہلوانے کے ڈر سے نہیں کر پاتے۔

حال ہی میں گھریلو تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین کی یا تو مزاحمت کی جاتی ہے، یا انہیں نرم کر دیا جاتا ہے۔ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف لائے گئے سندھ کے حالیہ قانون کو ‘غیر اسلامی’ قرار دیا گیا۔ کئی قوانین مشتبہ تشریحات پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں کمزور و معصوم لوگوں کے خلاف ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

آج اسلام کے عقلیت پسندی، غور و فکر، بحث و مباحثے، کشادگیءِ ذہن اور انتخاب کی آزادی کے پیغام کو دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔ ایک فرد کو اپنی مرضی کے مذہب یا فرقے کی پیروی کی اجازت ہونی چاہیے، اور ریاست کو اپنی توجہ لوگوں کی بھلائی کی جانب کرنی چاہیے، انہیں صحت اور تعلیم فراہم کرنی چاہیے، اور صرف غریب لوگوں کے استحصال کی صورت میں مداخلت کرنی چاہیے۔

علما کو مل بیٹھ کر گفتگو کرنی چاہیے کہ آخر لڑائیاں ہیں کس بات پر، اور یہ بھی کہ کیا ان کے مؤقف اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں بھی یا نہیں۔ مسلمانوں کو ان کی ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں شریعت کے مطلب پر بحث کرنے کی آزادی ہونی چاہیے، اور یہ کہ اس کی کون سی صورت متعلقہ ہے اور کون سی نہیں۔

مدرسوں کے پیدا کردہ ہزاروں ‘علماء’ پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کیا سیکھتے ہیں اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ مساجد کے خطبوں کا محتاط جائزہ لے کر کسی بھی نفرت انگیز چیز کو نکال دینا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے جو خواتین کے حقوق کے مخالف ہیں اور فکری ترقی پر پابندیاں لگاتے ہیں، ان سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ اور ان تمام اقدامات کو سخت قوانین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ اسلام سے متعلق معاملات پر تحقیق کرنی چاہیے، اور یہ کام ہمیں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کرنا چاہیے۔

اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اس دور کی اہم ضرورت ہے۔

بشکریہ ڈان

[pullquote]لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
[/pullquote]
nikhat_sattar@yahoo.com

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے