پاکستان میں انٹرنیٹ سروس بندہوجائے گی؟

ماضی کے حالات و واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سروس غیر معینہ مدت کے لئے معطل کی جاسکتی ہے۔ اختلافِ رائے کو دبانے کے لئے ماضی میں مختلف اخبارات و رسائل پر پابندیاں لگیں۔ چھاپہ خانے بند کئے گئے۔

لکھاریوں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ ٹی وی چینلوں پر بھی پابندیاں عاید کی گئیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی جاگیردار، مذہبی، سیاسی و فوجی اشرافیہ کے لئے سوشل میڈیا پر برپا ہونے والا طوفان ایک چیلنج بن چکا ہے۔

سوشل میڈیا نمرود کی ناک کے سامنے منڈلانے والا مچھر ہے جو بار بار اسے تنگ کرتا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ ایک دن یہ مچھر اس کی موت کا سبب بن جائے گا۔ نمرود سے مراد ہر وہ سوچ ہے جو اپنی مخالف سوچ کو برداشت نہیں کرتی۔

ماضی میں لگنے والی مختلف پابندیوں کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ذرایع ابلاغ کے کسی بھی شعبے کے خلاف کاروائی کرنے سے پہلے عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے جبکہ پابندی لگانے کی وجہ کچھ اور ہوتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ماضی میں جیو ٹی وی پر لگنے والی پابندی ہے۔

جب حامد میر پر حملے کے بعد ان کے بھائی کا بیپر لیا گیا تو انہوں نے حملے کا الزام براہ راست ایک حساس ادارے کے سربراہ پر لگادیا تھا۔ جس کے بعد ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ مگر جیو کو بند نہ کیا جاسکا۔

کچھ عرصہ بعد ہی جیو کے مارننگ شو میں گائی جانے والی ایک متنارع قوالی کو جواز بنا کر جیو کو بند کردیا گیا۔ جیو کے خلاف پاکستان کی تمام عدالتوں کے فیصلے سامنے آنے لگے۔ مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کئے گئے۔

یوں تو ووٹ لینے کی خاطر مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ذرایع ابلاغ کے خلاف بھی اس حکمت عملی کو موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔

ماضی میں یو ٹیوب کی بندش کے متعلق بھی کچھ لوگوں کی رائے یہی ہے کہ وجہ کچھ اور ہوگی مگر گستاخانہ ویڈیو کو جواز بنا کر یو ٹیوب کو بند کردیا گیا تھا۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایک یا دو دن کے لئے انٹرنیٹ کی بندش کا آئیڈیا سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا تھا جس کو آج بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

محرم الحرام ہو یا ربیع الاول یا کوئی اور اعلی تقریب پاکستان میں انٹرنیٹ سروس بلا حیل و حجت بند کردی جاتی ہے۔ معاشی نقصانات کی پرواہ کئے بغیر۔ سیکیورٹی کے لئے انٹرنیٹ کی بندش ایک بہترین شارٹ کٹ ہے جو اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

موجودہ حالات میں بلاگرز کی جبری گمشدگیاں اور مختلف پیجز کا بند ہونا یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا مستقبل میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو بھی بند کردیا جائے گا؟ کیوں کہ اس مرتبہ بھی کسی ممکنہ اقدام سے قبل مذہبی جذبات کو ہوا دی جارہی ہے۔

اردو اور انگریزی بلاگز کی متعدد سائٹس موجود ہیں جن میں سے کچھ سائٹس کی باقائدہ ادارتی پالیسی ہے جو مضمون کو جانچنے اور پرکھنے کے بعد شایع کرتی ہیں اور بہت سی ایسی سائٹس ہیں جن پر براہ راست بلاگز لکھے جاتے ہیں۔

جس سائٹ پر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اس پر تحریر کو جانچنے کے بعد شایع کیا جاتا ہے۔ مگر مسئلہ صرف بلاگز کا نہیں ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر کی شکل میں بڑے پلیٹ فارم موجود ہیں جہاں لوگ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا منفی اور مثبت استعمال پورے زور و شور سے جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کِس کِس سائٹ اور کون سے پیجز کو بند کیا جائے کیونکہ تعداد بہت زیادہ ہے اور ایک کو اگر بند کیا جائے گا تو وہ کسی دوسرے نام سے اپنا کام شروع کردے گا۔

سوشل میڈیا ایک سمندر ہے اور سمندر کو نہ تو کوزے میں بند کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سمندر کی بپھری موجوں کو کوئی روک سکتا ہے۔ ایسا سمندر جس میں اگر طوفان برپا ہوجائے تو بڑے بڑے جہاز غرق ہوجاتے ہیں۔

مکالمے کا اگر راستہ روکا جائے گا اور آوازوں کو اگر دبایا جائے گا تو معاشرے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مکالمے کے جواب میں مکالمہ کیا جانا چاہئے اور دلیل کا جواب دلیل سے ہی ہونا چاہئے بجائے اس کے کہ آپ دلیل کے ذریعے گفتگو کرنے والی زبانیں کاٹ ڈالیں۔

لکھاریوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کسی بھی طبقہ فکر کے جذبات مجروح نہ ہوں تاکہ کسی کو پابندیوں کا جواز بھی نہ مل سکے۔ پاکستان میں مکمل طور پر انٹرنیٹ بند کئے جانے کے امکانات تو بہت کم ہیں مگر ایسا کیا گیا تو پاکستان کتنا پیچھے چلا جائے گا اس بات کا اندازہ سب کو ہے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی پابندی لگانے والے کبھی یہ بات نہیں سوچتے کہ اس پابندی کے کیا منفی اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔ نہ جمہوری حکومتوں کے تختے الٹتے ہوئے نہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگاتے ہوئے اور نہ ہی ذرایع ابلاغ کے معاملے میں۔

سرکاری ٹی وی پر صرف ایک اعلان ہوگا کہ دشمن ملک کے ہیکرز نے اہم سرکاری دستاویزات پر حملہ کردیا ہے یا سوشل میڈیا کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل رہا ہے اور خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لئے ملک میں انٹرنیٹ سروس کو معطل کردیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے