حق آنے اورباطل مٹنے کو ہے

جناب الطاف حسین کے دیے ہوے نظریے کو ختم کرنے کے لیے باطل قوتوں نے ہر طرح سے ختم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے کیونکہ ایم کیوایم کی عوام میں مقبولت کی بنیاد محور اور مرکز صرف نظریہ ہی نہیں بلکہ مرکز و محور اور بنیاد وہ شخص ہے جس نے نظریہ دیا, بنیادی حقوق کے حصول کے لیے اس نظریہ پر قوم کو متحد کیا اور پھر جو کچھ کہا اس پر پہلے خود عمل کرکے دکھایا اور دنیا میں فلسفہ ء4 حقیقت پسندی و عملیت پسندی کو متعارف کروا کر اپنا لوہا منوایا.
الطاف حسین نے جس نظریے , فکر و فلسفہ کو مہاجر قومی موومینٹ کے پلیٹ فارم سے متعارف کروایا تھا آج وہ متحدہ قومی مومینٹ کے پلیٹ میں تبدیل ہوکر شہر کراچی , حیدرآباد, میرپورخاص سے نکل کر اندرون سندھ , پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے 98 فیصد مظلوم محکوم عوام تک پھیل چکا ہے. الطاف حسین ہی اس ملک کی مظلوم محکوم عوام کی آخری امید ہے جو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاسکتا ہے .

ایم کیوایم کے نظریے سے بھٹکانے کے لیے 92ء میں بھی ایک ٹولہ متعارف کروایا گیا , جبری طور پر پریس کانفرنس کروائی گئیں مگر وقت گزرتاگیا باطل قوتوں کی حقیقتیں واضح ہوتی گئیں اور قوم کا الطاف حسین سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا. جب جب الطاف حسین کی عوامی مقبولیت کو چیلنج کیا گیا تب تب الطاف حسین اپنی دگنی طاقت سے ابھر کر سامنے آے ہیں چاہے وہ 92 کے بدترین ریاستی آپریشن کے بعد ہونے والے 93 کے الکشن ہوں یا پھر 1996/97 کا بدترین ماحول ہو تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آزمایا گیا ہے الطاف حسین قوم کی طاقت سے سرخروہوکر سامنے آتے ہیں اور الزام تراشی کرنے والے بھی شرمندہ ہوتے ہیں اور بدترین مخالف بھی .

تاریخ گواہ ہے کہ جب جب شیطان صفت درندوں نے اپنی طاقت کے نشے میں چور ہوکر مظلوم و غریب محکوم عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انکا استحصال کیا تو ان ظالم و جابر اور استحصال ٹولے کے راستے میں مظلوم عوام نے حق پرستی اور سچائی کا قلم اٹھاکر اس استحصالی ٹولے کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور وقت نے یہ ثابت کردیا کہ حق آنے کیلیے ہے اور باطل مٹ جانے کیلیے ہے .

بائس اگست دوہزار سولہ کی تقریر جس پر حالانکہ الطاف حسین کئی مرتبہ معافی مانگ چکے ہیں ) اس تقریر کا تذکرہ کرکے کچھ عناصر قوم کو گمراہ کرنے اور الطاف حسین کو ملک دشمن قرار دینے کے لیے ہر جتن کرکے دیکھ چکے ہیں جس میں جناب االطاف حسین کے قریبی ساتھی بھی شامل ہیں جو اس تقریر کے بعد اظہار لاتعلقی کرچکے ہیں اور جنھیں متحدہ قائد کی جانب سے تنظیم سے بھی نکال دیا گیا ہے.

ہمیں اس معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے مثبت فیصلے کرنے ہونگے , ملک و قوم کی بہتری کے لیے کڑوے گھونٹ پینے ہونگے تاکہ ہماری سمت صحیح ہوسکے اور سب سے پہلے ہمارے صحافتی اداروں کو اپنی زمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوے معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے صرف اپنی ٹی آر پیز کے لیے کسی کو مجرم بناکر پیش کرنے کے بجاے حقائق پر مبنی اور تحقیق شدہ خبریں عوام تک پہنچائی جائیں.

متحدہ قائد یا پھر کسی کی بھی حب الوطنی کو ہم نہیں جانچ سکتے اور نہ ہی کسی نعرے پر ہم کسی کو ملک دشمن قرار دے سکتے ہیں بائس اگست کی تقریر پر جس طرح سے الطاف حسین صاحب کا میڈیا ٹرائل کیا گیا وہ قابل مزمت تھا کیونکہ ایک شخص پر آپ الزام بھی لگارہے ہیں اور اسکو اپنا موقف عوام تک پہنچانے کا موقع نہیں دے رہے کہ آخر اس نعرے یا تقریر کی کیا وجوہات تھیں. الطاف حسین بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے کہ میں اور آپ ہیں لہذ ا ا بھی تک کسی کی حب الوطنی کی پیمائش کا کوئی آلہ تو ایجاد نہیں ہوسکا تو اس بحث کو اب ختم ہونا چاہیے .

ایم کیوایم کا موقف ہے کہ ماضی کی تمام تر تلخیوں کو بھلا کر ایم کیوایم قائد نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور اسی سلسلے میں 21جنوری 2017 بروز ہفتہ کو متحدہ قومی موومینٹ کی جانب سے استحکام پاکستان ریلی کا انعقاد کیا جارہا ہے جو عائشہ منزل سے شروع ہوکر مزار قائد پر اختیتام پزیر ہوگی جس سے ایم کیوایم قائد الطاف حسین خطاب کرینگے.

ایم کیو ایم کی جانب سے استحکام پاکستان ریلی کا انعقاد پہلی مرتبہ نہیں اس طرح کی ریلیوں کا انعقاد ماضی میں بھی متعدد بار کیا جاچکا ہے.

کچھ افراد کی جانب سے اس استحکام پاکستان ریلی کے انعقاد پر سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آیا کہ متحدہ قومی موومینٹ کو کراچی میں ریلی نکالنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں تو وہ لوگ یہ بات بھول رہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ پر اب تک کوئی پابندی عائد نہیں کہ گئی ہے جو کچھ سختیاں کی جارہی ہیں وہ غیر اعلانیہ اور غیر آئینی ہیں , حالانکہ کبھی کسی نے اس طرح کا ابجیکشن یا سوال ان دہشت گرد , انتہا پسند کاالعدم تنظیموں کی ریلی پر کبھی نہیں اٹھایا گیا جن پر بین الاقومی فورم ہو یا قومی ہر سطح پر پابندی ہے لہذ ا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہمیں آگے بڑھ کر الطاف حسین صاحب کے مثبت اقدام کو نہ صرف سرہانا چاہیے بلکہ آزاد شہری کی حیثیت سے ملکی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کا مکمل موقع دینا چاہیے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے