’ہرچیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا کہاں کا انصاف؟‘

کلر سیداں: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اہل سنت والجماعت کے سربراہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر چیز مولانا احمد لدھیانوی سے جوڑنا کہاں کا انصاف ہے؟

اسلام آباد کے علاقے کلر سیداں میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ نے مخالفین کے اعتراضات پر کہا کہ کیا ساجد نقوی یا آغا سید حامد علی موسوی کو دہشت گرد تنظیموں سے جوڑا جا سکتا ہے؟، یہ محب وطن پاکستانی ہیں لیکن ان کی تنظیمیں فرقہ وارایت کی وجہ سے کالعدم قرار دی جا چکی ہیں، اور تصاویر ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کس نے کس سے ملاقات کی ہے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2016 میں مختلف جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کے ایک وفد نے وفاقی وزیر داخلی سے ملاقات کی تھی، جس میں اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی شامل تھے، اس ملاقات کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے چوہدری نثار سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس مطالبے میں سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد شدت آ گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ میری تقریر پڑھے بغیر اپنے مطلب باندھ لیے گئے ہیں جو کہ زیادتی اور ناانصافی ہے۔

واضح رہے کہ سینیٹ میں دیئے گئے ایک بیان میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کالعدم فرقہ وارنہ تنظیموں کا موازنہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے نہیں کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور پیپلز پارٹی کو ان سے جو تکلیف ہے اس سے سب واقف ہیں۔

انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ پیپلزپارٹی کا کونسا لیڈر ہے جو اپنے دور میں کالعدم جماعتوں کے لوگوں سے نہیں ملا؟

چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ فرقہ ورانہ بنیادوں پرکالعدم قراردی گئی جماعتوں کے لوگ اب بھی پاکستان میں موجود ہیں، اگر کوئی اندھا یا گونگا بن کر بیٹھ جائے تو وہ کچھ نہیں کرسکتے، اور دہشتگرد تنظیموں اورفرقہ ورانہ تنظیموں کے درمیان فرق ریکارڈ پر موجود ہے۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’چوہدری نثار نے نیشنل ایکشن پلان کے برخلاف کالعدم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات کی، جس کے بعد ان کا عہدے پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔‘

[pullquote]سلمان حیدر کی بازیابی کا عندیہ
[/pullquote]

سماجی کارکن سلمان حیدر کی گمشدگی پر پوچھے جانے والے سوال پر وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے پروفیسر سلمان حیدر کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ ہے، اور ہم اس معاملے پر توجہ دیئے ہوئے ہیں۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ تمام لوگوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو احساس ہونا چاہیئے کہ یہ ایک سنجیدہ واقعہ ہے اور اس تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے تاہم ہم پوری کوشش میں ہیں کہ تمام افراد جلد از جلد بازیاب ہوں تاکہ گھر پہنچ سکیں۔

وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیکیورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے اور کچھ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اس کا اعلان ان افراد کی بازیابی کے بعد ہی کیا جائے گا لہذا لوگ اعتماد کا اظہار کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد اور لاہور سے 5 سماجی کارکن اور شہری لاپتہ ہوئے، ان میں سے دو وقاص گورایا اور عاصم سعید 4 جنوری جبکہ سلمان حیدر 6 جنوری سے لاپتہ ہیں، اس کے علاوہ احمد رضا نصیر اور ثمر عباس 7 جنوری کو لاپتہ ہوئے۔

پریس کانفرنس میں انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ سب مغویوں کو بازیاب کرایا جائے گا اور معاملات احسن طریقے سے حل ہوجائیں گے۔

[pullquote]فوجی عدالتوں کا معاملہ کچھ دن میں حل
[/pullquote]

ملٹری کورٹس کی توسیع سے متعلق پوچھے گئے سوال پر چوہدی نثار کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اجلاس ہوا ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے وقت مانگا گیا ہے جبکہ اپوزیشن بھی اس معاملے پر سوچ بچار کررہی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس کا بنیادی مقصد دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایک تیز نظام وضع کرنا ہے، آئندہ چند دنوں میں معاملہ کس طرف جاتا ہے سب کے سامنے آجائے گا۔

[pullquote]’’دوسروں کی ناکامی میرے حصے میں ڈال دی گئی‘‘
[/pullquote]

سانحہ کوئٹہ کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ پر کیے گئے سوال کے جواب میں چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ساڑھے 3 سال سر نیچے کرکے اندرونی سکیورٹی کے حوالے سے محنت کی مگر آج تک اس کا کریڈٹ نہیں لیا، نہ اندرونی سیکیورٹی کا اور نہ کراچی آپریشن کا، کیونکہ کریڈٹ لینے کے بعد لوگوں میں حسد پیدا ہوتا ہے اور اسٹیک ہولڈرز بیان بازی شروع کردیتے ہیں مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ جہاں ہماری کارکردگی کی بہتری دوسروں کے حصے میں چلی گئی وہیں دوسروں کی ناکامی میرے حصے میں ڈال دی گئی، خاص کر ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو ہر چیز کی ذمہ داری مجھ پہ ڈال دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 19 جنوری کی تاریخ مقرر ہوئی ہے اور زیادہ سے زیادہ 18 جنوری تک ہمارا جواب جمع ہوجائے گا، ہمارے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ ساڑھے 3 سال میں وزارت کی کامیابیوں کو سپریم کورٹ میں سامنے لایا جائے۔

بعد ازاں ہم سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد یہ معلومات قوم سے بھی شیئر کریں گے تاکہ عوام وزارت کی جانب سے کیے گئے کام سے آگاہ ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے