نیتوں کا فتور ؟؟؟

رواں ماہ کی گیارہ تاریخ کو گورنر سندھ اور جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی طویل علالت کے بعد اُناسی سال کی عمر میں انتقال کرگئے اور اُن کو بطور گورنر پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا۔وہ سندھ کے اکتیسویں گورنر تھے ۔جب سابق چیف جسٹس ،جسٹس سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ کے عہدے کی پیش کش کی گئی تو اُس وقت اُن کی عمر کچھ مہینے کم اناسی سال تھی اور وہ صرف دو ماہ گورنر سندھ کے عہدے پر رہے تاہم اس دوران بھی ان کا زیادہ تر وقت ہسپتال کے بستر پر گزرا اور ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس دوران عملی طور پر صوبہ سندھ بغیر گورنر ہی رہا۔

سعید الزماں صدیقی اس سے قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے ، ان کو 1جولائی 1999کوسپریم کورٹ کا چیف جسٹس تعنیات کیاگیا اوروہ اس عہدے پر 26جنوری 2001تک رہے۔سعید الزماں صدیقی نے بطور چیف جسٹس سندھ بھی خدمات سرانجام دیں۔ وہ 5نومبر1990سے21مئی1992تک سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔

اناسی سال کی عمر میں گورنر کا عہدہ قبول کرنا بڑی آزمائش تھی اور سعید الزماں صدیقی کو بھی اچھی طرح معلوم تھاکہ اپنی عمر اور بیماریوں کی وجہ سے وہ اس عہدے سے بہتر طور پر نبردآزما نہیں ہوسکتے پھر بھی انہوں نے اس عہدے کو قبول کرلیا۔جب ان کے انتقال کی خبر آئی تو کئی چہروں پر طنزیہ مسکراہت تک نظر آئی ۔اگر و ہ گورنر سندھ کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیتے تو اپنی اخری عمر میں یوں طنزیہ مسکراہٹوں کا شکار نہ ہوتے ۔

پہلے تو ہم اپنے عہدے سے ریٹائر ہونا ہی نہیں چاہتے اور وردی کو کھال قرار دیتے ہیں تاہم اگرہمیں بروقت ریٹائرمنٹ لینی پڑ جائے تو فوری طورپر دوسری پوسٹنگ،دوسرے عہدے کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔سعید الزماں صدیقی تو صرف ایک مثال ہیں ورنہ کھیل سے لے کرحکومت تک او ر حکومت سے لے کر اصل اختیار کی مالک دیگر مقتدر اداروں تک اس روش کی لاتعداد مثالیں نظر آتی ہیں ۔

کرکٹ سے بات شروع کرتے ہیں،عالمی کرکٹ سے کئی نامور کرکٹر کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کے عروج پر کرکٹ کو خیرباد کہا تاہم پاکستانی کرکٹ میں چند ایک کے علاوہ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔عمران خان نے 1992کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کیرئیر کے عروج پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ۔اسی طرح سعید انور بھی کیرئیر کے عروج پر کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تاہم اس کے بعد بقول شاعر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔انٹرنیشنل کرکٹ سے رکی پونٹنگ،مائیکل کلارک،شین وارن ،مہندرا سنگھ د ھونی اور مرلی دھرن سمیت کئی ایک مثالیں موجود ہیں جنہوں نے بروقت کرکٹ کو خیر باد کہا اور باعزت طریقے سے رخصت ہوئے ۔ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے موجودہ کرکٹر ز کو بھی اپنی کارکردگی کو مدنظر رکھ اور قوم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے سوچنا چاہئے ۔

کرکٹ کی طرح ملک کے دیگر شبعہ ہائے زندگی میں بھی یہی چلن عام ہے کہ کوئی بھی سرکاری و غیر سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کی عمر دوبار کراس کرنے کے بعد بھی ریٹائر نہیں ہونا چاہتا اور آخر میں معزز گورنر سند ھ سعید الزماں صدیقی کی طرح لوگوں کی طنزیہ مسکراہٹوں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔

آپ سکندر مرزا کی مثال لے لیں وہ مملکت خداداد کے کن کن معتبر اور مقتدرعہدوں پر تعنیات نہیں رہے تاہم ریٹائرمنٹ لے کر پرسکون زندگی کا کبھی نہیں سوچا ۔سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدرمملکت رہے ،اس سے قبل وہ وطن عزیز کے چوتھے گورنر جنرل رہے ،وزیرداخلہ رہے ، مشرقی بنگال(موجودہ بنگلہ دیش ) کے گورنرکا عہدہ بھی سکندر مرزا کے پاس رہا جبکہ وہ سیکرٹری دفاع بھی رہے ۔ا سی طرح اگر آپ آغا محمد یحیی خان سے لے کر پرویز مشرف تک ان تمام کامیاب اور طاقتور ترین لوگوں کی تاریخ نکال کر پڑھ لیں ۔یہ اگر وقت پر ریٹائر ہوجاتے تو قوم کا خراج تحسین ساتھ لے کر جاتے ۔تازہ مثال سابق آرمی چیف جنرل ریٹائر ڈ راحیل شریف کی ہے ۔اگر چہ وہ اپنے وقت پر ریٹائر ہوئے تاہم 39ملکی اسلامی اتحاد کے فوج کی سربراہی کے حوالے سے جو خبریں گردش میں ہیں (جس طرح وفاقی حکومت نے اس کیس میں ان کی مٹی پلید کرنے میں کسر نہیں چھوڑی )اس سے عوام میں ان کی عزت و تکریم میں واقعی کمی ہوئی ہے جو اس سے پہلے اپنی انتہاکو پہنچی ہوئی تھی (جس کی ایک مثال کراچی میں ایک شہری کی جانب سے ان کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کی دھمکی ہے ، وہ شہری راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد خالق حقیقی سے جاملے )۔

اب ذرا آتے ہیں امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب ۔وہاں کے لوگ جب کسی عہدے پر ہوتے ہیں تو سخت محنت کرتے ہیں اور اپنے کام کو نہایت ایمانداری سے نجام دینے کے بعد ریٹائرمنٹ کی عمرپہنچتے ہی عزت وتکریم سے ریٹائر ہوکر باقی زندگی سکون سے گزارتے ہیں۔مشاہدے میں آیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے وہ ریٹائر لوگ (جوکبھی جج ، ایم ڈی اور دیگر اعلی عہدے پر کام کرچکے ہوتے ہیں ) رضا کارانہ طور معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام شروع کر دیتے ہیں(اس طرح وہ خودبھی مصروف رہتے ہیں اور معاشرے کو ان کی ذات سے فائدہ بھی پہنچتا رہتاہے) جبکہ ہمارے ہاں پہلے تو کوئی ریٹائرمنٹ لینے پر تیار نہیں ہوتا اور اگر خوش قسمتی سے کوئی صاحب ریٹائر ہوجائیں تو باقی عمر اپنے ملنے والوں پر دوران ملازمت کئے گئے کاموں کا رعب جھاڑنے میں گزار دیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے