کتاب کے غائب صفحات

نواز شریف کی زندگی کی کتاب کے وہ صفحات جو غائب ہیں یا دانستہ فولڈ کر دیئے گئے ہیں۔۔۔ایک ایک کرکے سامنے آتے جارہے ہیں۔۔بی بی سی اردو کی رپورٹ نے برطانوی فائلوں میں محفوظ اس ریکارڈ کے حوالے دے کر کئی حقیقتوں کے پردے چاک کردیئے ہیں۔۔ جن کے بارے میں وزیراعظم اور ان کے رفقائے کار ۔۔۔ معاف کیجئے گا ۔۔ رفقائے کار لفظ شاید درست نہیں ۔۔۔طلال چوہدری ، دانیال عزیز اور طارق فضل چوہدری میاں صاحب کے بالکے تو ہوسکتے ہیں رفقائے کار نہیں۔۔تحریک انصاف والے بے شک ان کو درباری کہتے رہیں ہم تحریک انصاف والوں کی زبان نہیں بولیں گے۔۔۔ہاں خواجہ آصف۔ چوہدری نثار علی۔۔ اسحاق ڈار رفقائے کار ہونے کی تعریف پر پورے اترتے ہیں ۔مگر پانامہ کیس میں اسحاق ڈار یا خواجہ آصف کبھی کوئی بیان دے بھی دیتے ہیں لیکن وزیراعظم کا مسلسل دفاع کرتے نظر نہیں آتے۔۔ جیسے دانیال عزیز غصے میں ہوتے ہیں ۔۔ ایسے چوہدری نثار علی کو پانامہ لیکس پر کبھی تیور بدلتے نہیں دیکھا گیا.

ذرا سنئے تو بی بی سی اردو والے کہتے ہیں۔۔پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے میے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس انیس سو نوے کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔۔۔حسن نواز کی کمپنیوں پر بھی پارک لین کے فلیٹ کا پتہ درج ہے۔۔بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مے فیئر اپارٹمنٹس کے اسی بلاک میں ایک اور فلیٹ ‘بارہ اے’ ایک برطانوی کمپنی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز ہیں۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ نے ایون فلیڈ ہاوٴس میں فلیٹ نمبر بارہ اے انتیس جنوری سنہ دو ہزار چار میں خریدا تھا۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ حسن نواز چار دیگر کمپنیوں کوئنٹ پیڈنگٹن لیمٹڈ، کوئنٹ گلاسٹر پیلس لیمٹڈ، فلیگ شپ سکیوریٹیز لیمٹڈ اور کیو ہولڈنگز لیمٹڈ کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور ان سب کمپنیوں پر بھی ایون فیلڈ ہاوٴس کے فلیٹ کا پتہ ہی دیا گیا ہے۔

یہ وہی فلیٹس ہیں جہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے ہوئے نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو(شہید) کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے۔۔جس میثاق جمہوریت کا ملک کو فائدہ کم اورمسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو زیادہ ہوا۔۔۔۔ میثاق جمہوریت کے نام پر ہونے والا مک مکاو ایک دوسرے کی کرپشن پر خاموشی اختیار کرنے کانام ثابت ہوا ۔۔پیپلز پارٹی کے دور میں نواز شریف نے پانچ سال پورے کروائے۔۔ اور بعد میں رائے ونڈ بلا کر شہباز شریف نے جیسے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹا وہ بھی سب کو یاد ہے۔۔۔آج جب نواز شریف مشکل میں ہیں تو پیپلز پارٹی ۔۔۔ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اورملکی دولت کا حساب لینے کی بجائے ۔۔۔ پولیاں پولیاں گیندیں پھینک رہی ہے تاکہ میاں صاحب کریز پر موجود رہیں۔۔۔ اور اپنی باری پوری کرلیں۔

جھوٹ بھی عجیب آئلی صفت کی حامل شے ہے۔۔۔ جو کہیں ٹکتا ہی نہیں۔۔۔ایک جھوٹ بولنے کے بعد اسے ثابت کرنے کیلئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔۔اس کی واضح مثال غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں نواز شریف ، مریم نواز اور حسین نواز کے بیانات دیکھ لیں۔۔۔ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔۔ابھی حسین نوازکا بیان الحمدللہ میری بہن مریم نواز کی کمپنی ہے چل ہی رہا ہوتا ہے کہ ادھر سے مریم نواز کا بیان آ جاتا ہے کہ میرے بیرون ملک کوئی اثاثے نہیں ہیں۔۔۔ابھی مخالفین ان ہی بدلتے پینتروں کے چزے لے رہے ہوتے ہیں کہ ادھر سپریم کورٹ میں ایک قطری شہزادے کی داستان شروع ہوجاتی ہے۔۔۔اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں خط اب پوری قوم کو یاد ہو گیاہے۔۔۔
لیکن بہت سارے لوگ اس بات پر انگشت بدنداں ہیں شہباز شریف بھی تو گزشتہ ایک عرصہ سے تخت لاہور پر برا جمان ہیں۔۔۔ ان کا بیٹا حمزہ شہباز رکن قومی اسمبلی ہے تو دوسرا سلیمان شہباز اپنے شعبہ کا ماہر ہے۔۔۔ لیکن ان کے ہاتھ یہ گر کیوں نہیں لگے۔۔۔ پانامہ لیکس کے اس معاملے پر کبھی حمزہ شہباز نے دانیال عزیز کی طرح غصہ دکھایا نہ طلال چوہدری کی طرح مخالفین پر الفاظ کے نشتر برسائے ہیں۔۔

یہ چارٹر آف ڈیموکریسی ہی کی کرامت ہے کہ اپوزیشن لیڈر پیپلز پارٹی کے ہیں لیکن نواز شریف برطانیہ جائیں تو ہیتھرو ایئر پورٹ پر کہتے ہیں پاکستان میں ایک شخص میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔۔۔کسی جلسہ میں جائیں تو کہتے ہیں دھرنے والے جھوٹ بولتے ہیں ناغہ بھی نہیں کرتے۔۔۔نواز شریف کی ہر تقریب میں پی ٹی آئی اور عمران خان ان کی زبان پر آ ہی جاتاہے۔۔۔پیپلز پارٹی سے وہ اس لئے خوفذدہ نہیں ہیں کہ انھیں پتہ ہے میثاق جمہوریت کے پارٹنر تنگ نہیں کریں گے مخالف بیان دینا خورشید شاہ یا بلاول بھٹو زرداری کی مجبوری ہے۔۔ ایسا نہ ہوتا تو ستائیس دسمبر کو ملک بھر میں دما دم مست قلند ر کرنے کے دعوے کرنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ نہ جاتے۔۔

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔۔۔ کسی نے ان الفاظ کی حقیقت جاننی ہو تو وہ گھر بیٹھی مریم نواز کی سیاست میں زبردستی انٹری کرانے کا منظر دیکھ لے۔۔اگر شریف فیملی سے ہی لیڈر بنانا یا آگے لانا مقصود ہوتا تو حمزہ شہباز تو سیاست میں بھی موجود ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی ۔۔۔ وہ اپنے بابا اور تایا سے بچپن سے سیاست سیکھتے بھی آئے ہیں۔۔۔ اور ان میں سوجھ بوجھ بھی ہے۔۔ لیکن چونکہ وزیراعظم نواز شریف کی جگہ لینے کیلئے ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ ان کی اولاد میں سے ہی کوئی آگے آئے تو پھر مریم صفدر کو مریم نواز بنایا جارہا ہے۔۔ ۔مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو سوچا جائے وہ ہو جائے۔۔۔اب جب ڈان لیک والے پھر تحقیقات کا حساب مانگنے لگے ہیں تو اگرکبھی ایسے حالات ہوں توحمزہ شہباز تو کسی نہ کسی طرح صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں۔۔۔ نواز شریف کے بغیر مریم نواز سیاست میں چار قدم بھی نہیں چل سکیں گی۔۔ بابا کی حکومت ۔۔ ساری مشینری ملازم ہو تو سیاست کرنا آسان ہوتا ہے۔۔۔مگر جب بے نظیر بھٹو (شہید)کی طرح بغیر بابا کے گھر سے نکلنا پڑے تو کیپٹن صفدر بھی شاید مریم صفدر کے ساتھ نہ چل سکیں۔۔۔

یہ سارے مراحل بعد کے ہیں ۔۔ پیش منظر میں پانامہ لیکس کاخوفناک جن ناچ رہاہے۔۔ ۔ جس کو دیکھ کر بظاہر ہنسنے والے بھی اندر سے سہمے ہوئے ہیں۔۔اور حیران بھی ہیں کہ عدالت نے کچھ شوائد کو اخباری تراشے کہہ کر مسکراہٹ بخشی تھی۔۔ اب برطانوی میڈیا نے دستاویزات سمیت رپورٹس پھر سب کے سامنے رکھ دی ہے۔۔۔ گورے بھی بڑے شرارتی ہیں۔۔۔ وہ بھی میاں صاحب کے سیاسی بیان کے متبادل اور فائلیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ خدا کرے اب بکری کو بکری ثابت کرنے کا نہ کہا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے