یہ جنابِ شیخ کا فلسفہ؟

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے لیکر آج تک اس ملک کی تقدیر شاید ایک مسیحا کی منتظر ملٹری اور سول حکمرانوں کی چپقلش میں اپنی درماندگی اور اپنے عوام کی بے حالی پر ماتم کنا ں اور افسوس کرتی نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک پر حکمرانی کا ایک طویل عرصہ بلا واسطہ اور باقی عرصے کا بھی کم و بیش اکثر حصہ بالواسطہ ہمارے مقتدر اداروں اور فوجی جرنیلوں کے ہاتھ میں رہا۔ جو کہ کسی بھی جمھوری ملک کے لئے نیک شگو ن نہیں لیکن ایک تلخ حقیقت یہ کہ ان غیر آئینی اور غیر جمھوری حکومتوں کو دوام دینے کے لئے ہمیشہ جمھوریت کے خاندان کا کوئی بگوڑا سہارا دینے آگے بڑھ جاتارہا۔ چاہے وہ جنرل ایوب خان کی حکومت ہو یا پھر امیرا لمومنین ضیاء ا لحق کا دورِ اقتدار ہو۔ یا پھر کمانڈو جنرل مشرف کی حکومت ہو۔ ہر وقت اور ہر جگہ جمھوریت کا راگ الاپنے والے کچھ نادان بلکہ موقع پرست اور ذاتی مفاد کے اسیر زیرک سیاسی رہنماء ان حکومتوں کی دوام کا باعث بنے۔ جو کہ جمھوریت پسندوں کی نظر میں ملک و قوم کی تباہی و بربادی کا اصل سبب بنے۔

مہذب دنیا میں کوئی بھی ذی شعور جبر و قوت کی حکومت کی حمایت نہیں کر سکتا۔لیکن جبر و قوت اور شخصی اجارہ داری کہیں پر اور کسی بھی صورت میں جمھوریت اور اسلام کی نظر میں معیوب ہے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو فوجی جرنیلوں کی فردِ واحد کی حکومت ، جبر و استبداد نظر آتا ہے ۔ لیکن یہی قبیح اور مکروہ عمل جب وہ اپنی سیاسی جماعت میں جمھوریت اور عدل کے نام پر رواہ رکھتے ہیں۔ تو نہ تو انکا جمھوریت نواز ضمیر جاگتا ہے اور نہ ہی انکے عوام اور جماعت کے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ پڑتا ہے۔کوئی پارٹی کی تاسیس سے لے کر تا دمِ مرگ قیادت کی ڈور اپنے نصیب میں لکھوا کر لایا ہے ۔ تو کوئی غریب اور مزدور کے نام پر قیادت کی کرسی بس ایک خاندان کے پاس گروی رکھوا کر عوام اور جمھوریت کے ساتھ ایک بھدا مذاق کرنے میں مصروف ہے۔ کسی کو میراث میں قیادت اسلام کی سربلندی اور نفاذ شریعت کے عظیم مشن کو پورا کرنے کے لئے اپنے بزرگوں سے وصیت میں مل گئی تو کوئی اپنی قومیت اور علاقے کے نام پر دنیا جہان کی عیاشیاں اپنے نام لکھواکر آگیا۔ لہٰذا جب تک قومیت کی جنگ جیتی نہ جائے۔

جب تک اسلام کا عادلانہ نظام نافذ نہ ہوجائے۔۔۔ جب تک غریب اور مزدور کو اسکے حقوق نہ ملیں ۔۔۔۔ جو کہ انکے ہوتے ہوئے کبھی ہوگا نہیں۔۔ تب تک ان رہنماؤں کی قیادت کی ملک و قوم کو اشد ضرورت رہے گی اور کسی دوسرے کو آگے بڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔جب اس صورتِ حال پر غور و فکر کرتا ہوں تو دو ہی وجہ سامنے آتی ہیں کہ یا تو سیاسی جماعتوں میں قحط ا لرجال ہے ۔ اور جو ایک دفعہ قیادت کی کرسی سے چمٹ گیا اس سے وہ جگہ موت ہی خالی کرواسکتی ہے۔ یا پھر دوسری وجہ یہ کہ یہ لوگ اختیار اور موقع کے بھوکے ہیں پر جہاں ان کا بس چلا وہاں انہوں نے کھلے عام جمھوریت کا بوریا بستر کرواکراپنے مفادات کے گلشن سجا دئے۔شاید انہی جیسے لوگوں کے لئے شاعر نے کہا

یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے الگ ہی سارے جہاں سے
جو یہاں پےؤ تو حرام ہے جو وہاں پےؤ تو حلال ہے

فوجی حکمرانوں کے جبر کی حکومت کو کاندھا دینا جمھوریت کی خدمت، مرتے دم تک اپنی جماعت کی قیادت کا تاج اپنے سر پر سجائے رکھنا عین جمھوریت کی ضرورت ،اپنی ہی جماعتوں میں قابل اور مخلص لوگوں کو جماعت کی اگلی صفوں میں آ نے سے دور رکھ کر چند گنے چُنے اپنے منظورِ نظر لوگوں کو اپنی جی حضوری کی بنیاد پر قیادت کے اہل سجمھنا جمھوریت کے لئے آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے۔ضمیر کا سرِ عام نیلامی کرکے ملک کے وسیع تر مفاد کے نام پر عوامکی آنکھوں میں دھول جھونکنا جمھوریت کے پودے کو پانی لگانے کے برابر سمجھنا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ نقطہ میری سمجھ سے بالا تر ہے شاید ہمارے سیاسی قائدین کمال ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سیاسی پیادوں کے ذریعے ان سب خد شات کو لغو قرار دے کر اسکو کسی بیرونی یا پھر ملک میں تیسری قوت کی ایک گہری سازش قراردے دیں۔

جمھوریت اس وقت دنیا کا سب سے بہترین اور اسلام کے شورائی نظام کے قریب تر ہے۔ لیکن یہ نظام ہمارے نا م نہاد جمھوریت پسندوں کا مطمحِ نظر نہیں صرف اس نعرے کی بنیاد پر اقتدار کی ہوس اور بھوک مٹانے کی کوششیں ہیں۔وگرنہ عوام کی طاقت سے بننے والی جمھوری حکومت میں فوجی عدالتوں کا کیا کام؟؟؟ کیا ہماری عدالتیں بے معنی ہوگئیں؟؟ کیا دو تہائی اکثریت والی حکومت عوام کو جلد انصاف فراہم کرنے کے لئے بنیادی تبدیلیاں کرنے کی اہل یا خواہاں نہیں؟؟ یا پھر فوجی عدالتوں کا قیام اس نقطہ نظر سے کہ جب تک ہماری کرسی کی خیر ہو تو جمھوریت کو فوجی عدالتوں کا پیوند لگانے یا پھر کراچی کو سول اور فوجی حکومت کی مشرکہ شکل کے حوالے کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اس طرح کے فیصلے کرنے میں ان لوگوں کا ضمیر اور جمھوری سوچ بازارِ خودغرضی میں کہیں بک تو نہیں جاتا؟؟؟ اور اگر واقعی ان متضاد عمل کے حامل سیاستدانوں کی یہ بات مان لی جائے کہ ملک کو اسکی اس وقت ضرورت ہے۔ تو پھر ایک عام آدمی فوجی سربراہ کے اس اعلان پر یقین کیوں نہ کرے کہ جب وہ ان کا بوریا بستر گول کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کے حالات اور انکی کرپشن کو دیکھتے ہوئے ۔۔۔ میرے عزیز ہموطنو۔۔ اور کوئی چارہ نہیں تھا؟؟؟۔۔کہ ابھی بھی فوج ہمارے ریاستی اداروں میں سب سے منظم اور قابلِ تعریف ادارہ ہے۔

سو جہاں ہمارے سیاسی رہنماء ہمارے فوجی اداروں کو اپنے حدود میں اور جمھوریت کو مضبوط کرنے کا درس برملا اور اشاروں میں دیتے رہتے ہیں۔ وہیں ان سے بھی گزارش ہے ۔ کہ جمھوریت کے نام پر عوام کو لُوٹنے کی بجائے جمھوری اقدار کو اپنے عمل سے ثابت کریں۔ جمھوریت کے پیٹھ میں خودغرضی کا چُھرا گھونپنے کی بجائے حقیقی جمھوری عمل کو اپنے ذات سے شروع کرکے قوم کے سامنے کردار و اخلاق کا نمونہ پیش کریں۔ اپنے قول و فعل میں تضاد کی بجائے اپنے کردار کی مضبوطی سے جمھوریت کی آبیاری کریں جب تک جو یہاں پےؤ تو حرام ہے۔۔۔۔۔ جو وہاں پئیو تو حلال ہے کا فلسفہ عمل میں ہوگا ۔
سرے محل ، دبئی کی دولت ، پانامہ لیکس اور پتہ نہیں اور کون کونسے لیکس ان سیاستدانوں کے کردار کا مذاق اُڑاتی رہیں گے۔ کہتے ہیں کہ دھواں وہیں اُٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کو بڑی ایمان داری سے چور کہنے واے ہمارے جمھوری اور عوامی رہنماء اے کاش۔۔۔۔ ایک دوسرے سے گالم گلوچ، الزامات اور ایک دوسرے کو چور، جاہل اور جمھوریت دشمن کہنے کی بجائے کارگردگی ، کردار کی خوبصورتی ، شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار میں مقابلہ کرتے ۔

لہٰذا عوام کی نظروں میں جمھوریت کی عزت بڑھانے اور جمھوری عمل کو دوام دینے کے لئے اپنے رویوں میں جمھوریت کا مظاہرہ کرناے ہوگا۔ اپنے سیاسی جماعتوں کو آمریت کی بدترین شکل سے نکال کر ایک حقیقی جمھوری ادارہ بنانا ہوگا۔ قیادت کی ہوس اور نشہ کو چھوڑ کر اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی قیادت اپنے سے زیادہ اہل اور قابل لوگوں کے سپرد کرنی ہوگی۔ جبر و طاقت کا استعمال الیکشن کے دوران یا پھر حکومت کے اندررہ کر اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی روایت ترک کرنی ہوگی تاکہ جمھوریت کی عظمت کے ساتھ ساتھ قوم کو جمھوریت کا نام لینے والے غیر جمھوری اور سیاسی جماعتوں کے قول و فعل کے بھی کوئی تضاد نظر نہ آئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے