جو بادہ کش تھے پرانے ، اُٹھے جاتے ہیں

استاذ الکل ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ ایک خاص طرز کے بزرگوں کے قافلے کے شاید آخری فرد تھے۔
تدریس کے میدان کے شاہسوار اور بلا شبہ امام المدرسین تھے۔ درس کی زبان ایسی صاف ستھری ، دھلی دھلائ ، واضح اور شستہ ہوتی کہ دل چاہتا کہ بس یہ فرماتے رہیں اور بندہ سر دھنتا رہے۔

حق گوئ اور تصلب فی الدین میں اپنی مثال آپ تھے۔ جس بات کو حق سمجھا لا یخافون لومة لائم برملا اس کا کھل کر اظہار کیا اور کسی کی ناراضگی کی کبھی پرواہ نہیں کی۔

دنیا سے بے رغبتی اور زھد میں گزرے وقتوں کے بزرگوں کی یادگار تھے۔ دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں ساری زندگی گزار دی۔ راحت و آرام کی فکر یا عیش و عشرت کا مزاج چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔

جفاکشی و مجاھدہ اور محنت و مشقت کی عادت آخری وقت تک گُھٹی میں تھی۔ باوجود پیرانہ سالی کے ایسے مشقت آمیز طویل اسفار فرماتے کہ جوانوں کو شرماتے تھے۔

افسوس اس طرز کے بزرگوں کو دیکھنے کو اب آنکھیں ترسیں گی۔ یا رب العالمین اپنی راہ کے اس تھکے مسافر کو آخرت کی تمام ابدی راحتوں اور دائمی نعمتوں سے سرفراز فرما۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے