کاروانِ اسلاف کا بچھڑا مسافر

یہ آج سے تیرہ برس قبل کی بات ہے۔ہم جامعہ الرشیدکراچی میں ایک کورس میں شریک تھے،کورس کے اختتام پر رئیس المحدثین شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان تشریف لائے،سوالات جوابات کی نشست ہوئی، کسی نے پوچھا”سنا ہے وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے حکومتی دباؤمیں آکر فلاں فیصلہ کیا ہے“۔مولانا سلیم اللہ خان کچھ دیر سوال کرنے والے کو غور سے دیکھتے رہے پھراپنا ہاتھ فضامیں بلند کیا اورارشاد فرمایا”جب تک سلیم اللہ خان زندہ ہے کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو دباؤڈال کر وفاق المدارس سے کوئی فیصلہ کروا سکے“ اس جملے میں ایک مرد حق کا ایسا یقین اور ایسا بانکپن تھا کہ تمام شرکاء محفل جھوم اٹھے۔اس وقت تو اس جملے نے بڑا لطف دیا لیکن بعد میں ذرا اس پر غور کیا تو اس جملے پر یقین کرنا ذرا مشکل لگااور گاہے یہ خیال گزرتا کہ حضرت نے ویسے ہی شرکاء محفل کو تسلی دینے کے لیے ایسے فرمادیا ہوگا مگر پھر اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے وفاق المدارس کے اکابر کی خدمت کی سعادت سے نوازا۔ حضرت صدرِ وفاق کو کئی اجلاسوں اور مذاکرات کے دوران دیکھا،سنا،ان کے طرز عمل کا جائزہ لیا تو ہر گزرتے دن کے ساتھ علم الیقین،عین الیقین میں اور عین الیقین حق الیقین میں بدلتا چلا گیا کہ واقعتا جب تک ”سلیم اللہ خان زندہ ہے کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو دباؤڈال کر وفاق المدارس سے کوئی فیصلہ کروا سکے“بھرے اجلاس میں حضرت شیخ کا محض وجود ہی بڑی غنیمت ہوتا۔وہ کچھ نہیں بولتے تھے مگر ان کو اللہ رب العزت نے انہیں جو رعب عطا فرما یا تھا وہ محض دیدنی تھا شنیدنی نہیں۔مولانا محمد حنیف جالندھری ان کی زبان تھے،حضرت صدرِوفاق سے پہلے مشورہ کرلیتے،رہنمائی لے لیتے اور پھر ان کی بات جچے تلے الفاظ، خوبصورت انداز اور بڑے اعتماد سے کہتے، حضرت شیخ ان کی تائید فرماتے رہتے،اجلاس کے اختتام پر مسکرا کر مہر تصدیق بھی ثبت فرماتے اور حوصلہ افزائی بھی فرماتے اور جب کبھی ضرورت پڑتی تو حضرت شیخ کی ایک ”نہ“،ان کے سر مبارک کی نفی یا اثبات میں حرکت ہی بہت سی تقریروں اور تحریروں پر بھاری ہوتی۔

وہ حقیقی معنوں میں لایخافون لومۃ لائم کا مصداق تھے۔بہت پہلے کی کیا بات کریں؟ موجودہ صدرِ پاکستان ممنون حسین سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے،دیگر علماء کرام بھی تھے،صدر مملکت تشریف لائے، تھوڑی دیر میں کیمروں والے ہال میں داخل ہوئے، ہاتھ فضا میں بلند کیا اور انہوں کیمرے ہٹانے کا حکم دیا،پاکستان کے صدر کی موجودگی میں صدرِ وفاق کے اشارے پر انہیں اپنے کیمرے سمیٹنے پڑے۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سوچتا صدر صاحب کیا کہیں گے؟،باقی لوگ کیا سوچیں گے؟لیکن انہوں نے جو رائے قائم کی ہر فورم پر اس پر کاربند رہ کر دکھایا،جسے حق سمجھا اس کا اظہار کیا،نہ ستائش کی تمنا رکھی،نہ صلے کی پرواہ کی نہ تبصروں اور طعنوں کو خاطر میں لائے۔

شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ایک ایسی چٹان تھے جو بہت سے فتنوں کے دہانے پرآخری سانس تک ڈٹے رہے۔اللہ رب العزت نے اس قدر مضبوط اعصاب عطا فرمائے تھے کہ انسان تصور کرکے ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔کوئی اہم موقع ہوتا تو کراچی سے سفر کرتے،گاہے ان کا پڑاؤملتان میں ہوتا،کبھی اسلام آباد کی طرف رخت سفر باندھ لیتے۔کچھ عرصہ قبل مدارس کے اجتماعات شروع ہوئے تو کراچی سے اسلام آباد تشریف لائے،اسلام آباد سے پشاور،پشاور سے سوات،سوات سے راولپنڈی،راولپنڈی سے مانسہرہ اور مانسہر ہ سے راولپنڈی اور پھر کراچی واپس تشریف لے گئے۔اللہ اللہ! ایسی الوالعزمی،ایسی ہمت اور حوصلہ کہ رشک آتا۔ہم جوان ہو کر تھک ہار جاتے مگر وہ اس عمر میں بھی ہمارے لیے عزم واستقلال کا استعارہ بنے رہتے۔صرف ایک سفر نہیں ہر دینی تقاضے اور ہر اہم موقع پر تیار ہوتے،چل پڑتے،امتحانات کے پرچوں کی چیکنگ کا مرحلہ آتا تو ملتان میں آکر ڈیرے ڈال لیتے،کوئی اجلاس ہوتا تو اسلام آباد تشریف لے آتے۔انہوں نے اپنے بڑھاپے اور اپنی علالت کو کبھی اپنے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔جوان ان سے حوصلہ پاتے،بچے انہیں دیکھ کر اندازہ لگاتے کہ ہمارے اکابر کیسے تھے؟

دور سے دیکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ حضرت بہت جلالی طبیعت کے مالک ہیں لیکن قریب سے دیکھنے والوں کو معلوم ہے کہ اللہ نے انہیں سراپا شفقت ومحبت بنایا تھا۔علالت ونقاہت کے باوجود محمد ی مسجد تشریف لائے،مسجداور طلبہ کو دیکھ کر خوشی سے طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ہمیشہ شفقت کا مظاہر ہ فرماتے اور ایسی شفقت کہ شرمندگی ہوتی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا وفاق المدار س سے منسلک ہوا تھا۔اسلام آباد ہوٹل میں حضرت کا قیام تھا، دیر تک لابی میں ان کے انتظار میں کھڑارہا حضرت اپنے کمرے سے تشریف لائے، جلدی میں تھے اس لیے دور سے ہی عقیدت ومحبت سے دیکھتا رہا اور آگے بڑھ کرمصافحہ بھی نہ کیا، وزارت داخلہ جانا تھا،عبدالرحمن ملک سے ملاقات اورمذاکرات تھے، اجلاس کے دوران وقفہ ہواتو سلام عرض کیا،مصافحہ کیا،میرا خیال تھا شاید مجھے جانتے بھی نہیں ہوں گے،اشارے سے قریب ہونے کو کہا تو ارشاد فرمایا”تم نے فلاں کالم میں یہ بات بہت اچھی لکھی ……ماشااللہ ……اللہ قبول فرما لیں“۔میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا کہ کہا ں یہ خیال کہ حضرت مجھے جانتے ہی نہ ہوں گے اور کہاں یہ عالم کہ کئی ماہ پرانا کالم اور اس کے مندرجات تک یاد ہیں اور اس پر حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں۔

حضرت مدنی جیسے اکابر سے کسبِ فیض فرمایا،اسلاف واکابر سا مزاج اور انہی والے اوصاف پائے تھے وہ انہی قدسی نفوس لوگوں کے قافلے کے ایک فرد تھے۔ان کے مسلک میں شاہوں کو سلامی روا تھی نہ بدلتے موسموں اور نت نئے رنگوں میں ڈھل جاناانہیں گواراتھا،وہ اپنے اکابر کی دی ہوئی میراث کے معاملے میں کسی مداہنت کا تصور تک کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے،انہوں نے زندگی کی آخری سانس تک جس بات کو حق سمجھا ڈنکے کی چوٹ بیان کیا،جو موقف اپنا یا اس پر سراٹھا کر کھڑے رہے،جو راستہ چنا اسی پر چلتے چلے گئے،بدلتے ہوئے حالات ان پر اثر اندازنہیں ہوئے لیکن انہوں نے حالات کے دھارے کارخ موڑ کر چھوڑا،نائن الیون کے بعد جب مدارس عالمی ایجنڈے پر آئے،دینی مدارس کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا گیا،مدار س کی مشکیں کسنے کی کوشش کی گئی،مدارس کا حلیہ بگاڑنے کے منصوبے بنے،مدارس کے گرد سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جالے بننے کے جتن کیے گئے،کبھی مدار س کا نصاب اور کبھی مدارس کا نظام ہدف بنا تب خوش قسمتی سے مولانا سلیم اللہ خان وفاق المدارس کے صدر تھے ان کٹھن حالات میں مدار س کے سامنے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان جیسا بھاری پتھر، مولانا محمد حنیف جالندھری جیسی چٹان اور دیگر اکابر کی شکل میں ایسے پہریدار موجودتھے اور محض اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے مدارس کے نصاب میں ایک لفظ کی تبدیلی نہ کی جاسکی،مدارس کے نظام کی عمارت کی کوئی ایک اینٹ بھی نہ سرکائی جاسکی،ہوائیں کتنی ہی تند وتیز رہیں لیکن شیخ سلیم اللہ خان جیسے درویش منش انسان اپنے آخری سانس تک اپنے پرانے چراغوں کو جلائے دنیا بھر میں ان کی روشنی بانٹتے رہے۔وہ جاگتے تھے اور ہم سب میٹھی نیند سویا کرتے تھے لیکن آج وہ ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سو گئے ہیں نہ جانے اب میٹھی نیند سونے والوں کا کیا بنے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے