مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

یہ ایک ایسے شاعر پر مذہب دشمنی کے الزام کی کہانی ہے جس نے مذہب کو بیوپار بنانے والوں کی اطاعت سے انکار کیا۔یہ انکار شاعر کا جرم بن گیا اور پھر جب کبھی اس شاعر نے حمد یا نعت کہی تو مذہب کے بیوپاری بھڑک اٹھے اور شاعر کے نعتیہ اشعار بھی مذہب دشمنی کے الزام کی زد میں آنے لگے۔ایسے ہی ایک گھنائونے الزام کی کہانی معروف دانشور اور نقاد پروفیسر فتح محمد ملک کی زبانی سننے کا موقع ملا۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ادب نواز وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے عظیم شاعر احمد فراز کی شخصیت اور فن پر گفتگو کیلئے تقریب میں بلایا تو پہلا سرپرائز وہاں افتخار عارف کی موجودگی تھی ۔دوسرا سرپرائز افتخار عارف کے پہلو میں شبلی فراز اور سعدی فراز کی موجودگی تھی۔تیسرا سرپرائز یہ تھا کہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام یہ تقریب اپنے وقت پر شروع ہو گئی اور چوتھا سرپرائز یہ تھا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپنے محدود وسائل کے باوجود فراز صاحب پر اتنی خوبصورت دستاویزی فلم بنائی کے ان سی جڑی بہت سی یادیں میری آنکھوں سے چھلکنے لگیں۔

اس محفل کا آغاز میجر عامر کی تقریر سے ہوا جو اسلامیہ کالج پشاور میں احمد فراز کے شاگرد تھے اور آخری تقریر صدر محفل پروفیسر فتح محمد ملک کی تھی۔ ملک صاحب کسی زمانے میں وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے کے پریس سیکرٹری تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت سو رہی ہوتی لیکن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جاگ رہے ہوتے۔

احمد فراز وفاقی وزارت اطلاعات کے ایک ماتحت ادارے نیشنل سنٹر میں ڈائریکٹر تھے۔فتح محمد ملک صاحب کے بقول ایک دن وزیر ا طلاعات مولاناکوثر نیازی نے احمد فراز سے تقاضا کیا کہ وہ ان کے ایک شعری مجموعے کا پیش لفظ لکھ دیں۔سرکش فراز نے اپنے باس کو کہا کہ میں تو آپ کو شاعر ہی نہیں مانتا میں آپ کی کتاب کا پیش لفظ نہیں لکھ سکتا۔

کچھ دنوں بعد ایک اخبار میں احمد فراز کی ایک نظم پر اداریہ لکھا گیا اور نظم کے ایک شعر کو مذہب پر حملہ قرار دیا گیا۔یہ اداریہ پڑھ کر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ حنیف رامے کو فون کیا تو وہ ابھی سوئے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنے وزیراعلیٰ سے کہا کہ یہ اداریہ بہت بڑا تنازع کھڑا کر سکتا ہے اس معاملے کو سنبھالو۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے پریس سیکرٹری فتح محمد ملک کو فون کیا تو وہ بھی سو رہے تھے ۔انہوں نے ابھی اداریہ نہیں پڑھا تھا ۔وزیر اعلیٰ نے ملک صاحب سے کہا کہ اداریہ پڑھ لیں اور دفتر آکر بتائیں کیا کرنا ہے۔ ملک صاحب نے اداریہ پڑھا ۔اداریے میں جس شعر کا ذکر تھا وہ احمد ندیم قاسمی کے جریدے ’’فنون‘‘ میں شائع ہونے والی نظم کا حصہ تھا لیکن قاسمی صاحب نے یہ شعر شائع نہیں کیا تھا۔

فتح محمد ملک صاحب نے ’’فنون‘‘ کا پرچہ اٹھایا اور اخبار کے ایڈیٹر مجید نظامی صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ انہیں بتایا کہ جس شعر پر آپ کو اعتراض ہے وہ تو شائع ہی نہیں ہوا ۔نظامی صاحب بڑے حیران ہوئے اور انہوں نے ملک صاحب کو بتایا کہ آپ کی حکومت بھی بڑی عجیب ہے، احمد فراز کا قابل اعتراض شعر تو مجھے آپ کے وفاقی وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی نے ٹیلی فون پر لکھوایا اور ساتھ ہی وزیر اعظم بھٹو کا پیغام پہنچایا کہ وہ احمد فراز سے سخت نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ اس کیخلاف ایک سخت اداریہ لکھیں تاکہ وزیر اعظم اسے نوکری سے نکال پھینکیں۔ہم کس کی سنیں؟ آپ کی یا کوثر نیازی کی ؟

ملک صاحب نے جناب مجید نظامی کی اجازت سے یہ بات بھٹو صاحب کو بتائی تو انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ سازش باہر سے نہیں اندر سے ہو رہی ہے ۔پھر انہوں نے احمد فراز کو فون کیا اور کہا کہ تم بچ گئے ہو لیکن محتاط رہو۔ فراز کہاں محتاط رہ سکتے تھے۔ایک دن جنرل ضیاء الحق کے ذریعہ وزیر اعظم بھٹو کو فراز کی شکایت پہنچی۔ان دنوں وزیراعظم قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفیٰ کے دبائو میں تھے لہٰذا فراز گرفتار کر لئے گئے۔

کشور ناہید نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے مسعود اشعر کے ہمراہ ملکہ ترنم نور جہاں سے ملاقات کی اور احمد فراز کی رہائی کیلئے اپنی دوست حسنہ شیخ سے بات کرنے کی درخواست کی جو بلیک کوئین کے نام سے مشہور تھیں۔بلیک کوئین کی مداخلت کام آئی اور فراز صاحب رہا ہو گئے۔

1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور کچھ ہی عرصے میں احمد فراز نے اپنی مشہور نظم ’’محاصرہ‘‘ لکھ ڈالی اور پھر گرفتار ہوگئے۔رہائی کے بعد بیرون ملک چلے گئے اور مزاحمتی شاعری کرتے رہے ۔2006ء میں احمد فراز نے جیوٹی وی پر میرے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں ’’محاصرہ‘‘ کے یہ اشعار پڑھ دیئے ؎

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

اس پروگرام میں فراز صاحب نے سیاست میں فوج کی مداخلت پر شدید تنقید کی لہٰذا ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔کچھ مہینوں میں مجھ پر بھی پابندی لگ گئی اور میں سڑک پر آ بیٹھا۔احمد فراز باقاعدگی کے ساتھ مشرف کیخلاف صحافیوں اور وکلاء کی تحریک کے دوران ہمارے مظاہروں میں شرکت کرتے تھے۔ جون 2008ء میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے ایک مظاہرے میں انہوں نے مجھے کہا کہ میں مشرف کو ایوان صدر سے نکال کر مروں گا۔مشرف نے 18اگست کو استعفیٰ دیا اور احمد فراز کا انتقال 25اگست کو ہوا۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور فراز کو بھی اپنی انسانی غلطیوں کا ادراک تھا اسی لئے انہوں نے کہا؎

معاف کر مری مستی خدائے عزوجل
کہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے میرے لب پہ غزل

احمد فراز نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی لیکن ان کے حاسدین نے آج بھی انہیں معاف نہیں کیا۔ یہ صرف ایک فراز کی نہیں ہر اس غیرت مند انسان کی کہانی ہے جو مذہب کے بیوپاریوں کی اطاعت سے انکار کرتا ہے اور ترقی پسندی کے نام پر مذہب سے کھلم کھلا بیزاری دکھانے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے ۔

فراز دراصل اقبال اور فیض کی روایت کے شاعر تھے جو مذہب کے بیوپاری کے خلاف تھے لیکن مذہب بیزار نہیں تھے ۔وہ ترقی پسند ذوالفقار علی بھٹو کے قیدی بھی بنے اور اسلام پسند جنرل ضیاء الحق کے بھی قیدی بنے ۔ فتوے کل بھی لگ رہے تھے فتوے آج بھی لگ رہے ہیں۔ نہ کل یہ فتوے قوم کا کچھ بھلا کر سکے نہ آج کر سکیں گے۔ کل سرکشوں کو گرفتار کیا جاتا تھا آج سرکشوں کو غائب کر دیا جاتا ہے ۔

اگر کسی سرکش نے واقعی مذہب کا مذاق اڑایا ہے تو پاکستان میں قانون موجود ہے اس قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہئے۔ سرکشوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیاں انہیں ہیرو اور ریاستی اداروں کو ولن بنا دیتی ہیں ۔فرق بڑا سادہ ہے احمد فراز تمام فتوئوں اور الزامات کے باوجود کل بھی ہیرو تھا آج بھی ہیرو ہے۔

راحیل شریف کل ہیرو تھا آج زیرو ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے واپسی پر فراز کے یہ اشعار مجھے یاد آرہے تھے ؎

میں کٹ گروں کہ سامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

بشکریہ: روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے