آزادکشمیرمیں ٹریفک حادثات کیوں؟

اس تحریر کے آغازسے پہلے ایک گزارش کرتا چلوں کہ اپنے وطن میں رہتے ہوئے شاید یہ سب چیزیں زیادہ معیوب نہ لگتی ہوں لیکن بیرون ملک بسنے والا ہر محب الوطن پردیسی دن میں کم از کم ایک بار ضرور یہ سوچتا ہے کہ جس ملک میں ہم تلاش معاش کے سلسلہ میں پڑے پردیس کی قید کاٹ رہے ہیں، کاش اس ملک کے جیسے قوانین ہمارے ملک میں بھی ہوں تو راوی چین ہی چین لکھے۔

لیکن ہم باہر بسنے والوں کی مثال اُس مور جیسی ہے جو جب جب اپنے پنکهوں کی خوبصورتی کو دیکهتا ہے تو جهومنا و ناچنا شروع کر دیتا ہے لیکن جوں ہی اس کی نظر اپنے بد شکل پیروں کی طرف جاتی ہے تو غم سے گرتے ہی مر جاتا ہے.

لائن منیجنمنٹ میں اپنے فرائض ادا کرنے والے دوست و احباب اور خاص کروہ لوگ جو میرے ہم پیشہ ہیں ، ان سب کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہم لوگ جب بھی کسی دوسرے ملک میں بیٹھے کسی کمپنی کے کسی پراجیکٹ پر کوئی بھی پروسیجر یا قانون لاگو کرواتے ہیں تو ایک بار دل میں لازمی طلب سی محسوس ہوتی ہے کہ کاش یہ سب کُچھ ہم لوگ اپنے وطن کےلئے کر رہے ہوتے….

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں کشمیر میں لفظ (سیفٹی) یعنی ​حفاظتی تدابیر کا نہ ہی کوئی تصور ہے اور نہ ہی اسے کوئی سنجیدہ لیتا ہے۔
ہمارے ہاں محکمہ صحت اور ماحولیات کی وزارتیں تو موجود ہیں، لیکن جس طریقہ کار سے چل رہی ہیں وہ کسی بهی با شعور آدمی سے پوشیده نہیں.ہاں اگر کسی کنوئیں کے مینڈک یا مطلب پرست انسان کو ایسا ہی طریقہ کار پسند ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی سوچ پہ ماتم کرتے ہوئے کم از کم اپنی آنے والی نسلوں کو سدا کی اس غلامی سے نجات دلانے کےلیے اپنا کچهہ حصہ تو ڈالے..

ہمارا محکمہ ماحولیات ماشاءاللہ بس قدرتی حسن و ماحول سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ کُچھ بھی نہیں کرنا چاہتا۔

ماحولیاتی آلودگی ایسی کہ گندگی کو گندگی لکھتے بھی شرم آئے.

اوپر سے مسلہ یہ ہ کہ جب کسی بھی جماعت کا کوئی بھی سیاستدان الیکشن جیت کہ اسمبلی تک پہنچتا ہے تو اُس کے پارٹی صدر کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ بندے پورے کرو تاکہ اپنے بیٹھنے کو کرسی بچھائی جائے.

اگر کوئی ہمدرد بندہ کُچھ کرنا بھی چاہے گا تو وفاق والوں کی طرف سے کاکے دا کھڑاک کرنے والوں کے احکامات آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ قائدے میں رہو گے تو فائدے میں رہو گے.

کون کتنا کوالیفائیڈ ہے، کس کی کس شعبہ میں کیا تعیلم ہے یہ سب کس نے دیکھنا ہے اور کون اس بارے میں غور وفکر کرے. بس بندے پورے کرو اور کرسی سنبهالو، کیونکہ یہ جمہوریت ہے.

ترقی یافتہ ممالک میں اگرآپ کسی بھی محکمہ ، پبلک یا پرائیویٹ کمپنی یا کسی بھی گورنمنٹ یا نیم سرکاری ادارے میں چلے جائیں تو آپ کو ہیلتھ، سیفٹی اور ماحولیات سے متعلق ایک الگ سے شعبہ ملے گا۔ جس کا کام ہی ملازمین کو ان کو ذمہ داریوں کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ دنیا کے ہر ملک میں حادثات ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ حفاظتی تدابیر کا ہونا ایک مضمون کے طور پہ اداروں ، محکمہ جات یا کمپنیز میں پڑھایا جاتا ہے۔ اور جو ان تدابیر کو نہ مانے اس کی موت کو خودکشی گردانا جاتا ہے.

زیادہ دور کی بات کو رہنے دیتے ہیں اگر اپ ایک دوائی کی شیشی بھی دیکھیں گے تو اُس پر بھی حفاظتی تدابیر لکھی ہوں گی کہ ِاس دوا کو انتے درجہ سینٹی گریڈ تک رکھیں، تب ہی یہ محفوظ ہو گی۔ لیکن اگر ہم اُس دوا کو اُس مہیا کیے گئے درجہ حرارت میں رکھنے کے بجائے بے احتیاطی کر کے اُسے استعمال کرنے کے بعد لگنے والی کسی نئ بیماری یا موت کو اللہ کی مرضی کہیں گے تو اس کا مطلب ہیکہ ہمیں اپنے ایمان کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔

اللہ پاک نے ہی انسان کو جو دماغ دیا ہے، سائنسدان کے مطابق اُس کا وزن چھ پاؤنڈ ہے اور اُسے استعمال نہ کرنا اور اپنی اغلاط کو اللہ کی مرضی کہنا حماقت کے سوا کُچھ بھی نہیں.

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کشمیر میں آئے دن ہونے والے ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہونے والی اموات کو ہم لوگ اللہ کی مرضی سمجھ کے چُپ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک انسان ہونے کی حثیت سے اس طرح کے سب حادثات سے اپنے آپ کولاتعلق سمجھنا ماسوائے لاعلمی کے اور اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیرنے کے کچھ بھی نہیں.

تھوڑا سا غور کیا جائے تو موجودہ ہونے والے تمام واقعات کے پیچھے چند کمزور پہلو پوشیدہ ہیں جن کی وجہ سے آئے دن معصوم جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ہم حادثہ کی جگہ پہ شہید کا ایک بورڈ چسپاں کروا کے شہادت کا سرٹیفیکیٹ بھی اپنے طرف سے جاری کرنے کے ساتھ ساتھ لقمہ اجل بننے والوں کو سیدھا جنت میں بهی پہنچا دیتے ہیں. اور پهر دوسرے حادثہ کا انتظار کرتے ہیں.

میرے ناقص علم اور تجربہ کے مطابق آزاد کشمیر میں آئے دن ہونے والے حادثات کی اہم وجوہات مندرجہ ذیل ہیں .

1- سڑکوں کی ناقص تعمیر

2- ٹرانسپورٹ کی ناقص حالت/ کھٹارا گاڑیاں

3-اوور لوڈنگ

4- منشیات کا استعمال

5 – نیند کا پورا نہ ہونا

6 – موبائل کا زیاده استعمال.

7- ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنا-

8-ڈرائیورز کا منفی رویہ.

9-غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز.

10- توجہ کے فقدان-

11-تجربے کی کمی .

12-سخت موسم .

13-تیز رفتاری.

14-ذہنی دباؤ.

15-ڈبل شفٹ کام کرنا.

17-مہارت کی کمی.

18-ناکافی حوصلہ افزائی.

19-ناکافی قیادت.

20- ناکافی کام کا معیار .

اور ان سب کے ساتھ ساتھ تہذیب کی تنزّلی کا یہ عالم ہے کہ گاڑیوں کے ساتھ لٹکنا یا چھت پہ بیٹھ کہ سفر کرنا فیشن بن چُکا ہے۔

”چھت، پوڑی فل جان دیو اُستاد جی” کی آواز آتے ہی موت کا کنواں چلنا شروع اور عاشقانہ ماحول میں لتّا و رفیع کے پیار بھرے نغمے اتنی اُونچی آواز میں بجتے ہیں کہ گاڑی ، گاڑی کے بجائے کسی میوزک سنٹر کا منظر پیش کرتی ہے۔

ایسی دکھ بھری شاعری کہ ایک عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر کہ یا خدا یہ گاڑی ہے کہ غالب و فراز کا مشاعرہ۔

عشق حقیقی کا تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی عاشق کی گاڑی ابھی اڈے سے نکلنے والی ہو تو دور بہت دور پرچھائی سے بھی دور بیٹھی معشوقہ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ میرے محبوب کی گاڑی کے ہارن کی عاشقانہ صدا بلند ہوئی ہے۔

اب تو ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ اور دوسرے ہاتھ سے میسیجز کرنے والے ڈرائیورز کو بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

مہذب معاشروں میں پولیس قوانین کے مطابق سیٹ بیلٹ نہ باندھنا قانونی جُرم ہے اور اپنے ہاں گاڑیوں میں پہلی بات کہ سیٹ بیلٹ موجود ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی باندھ بھی لے تو دیکھنے والے اُسے چھچھورا، شودا اور نودولتیا پکارتے ہیں.

کان پھاڑعشقیہ و غمگین گانوں و نغموں کے دوران پچھلی سیٹ پہ بیٹھی کسی کی بہن و بیٹی کو آئینہ میں بار بار تاڑنا اور ہماری اُس بہن یا بیٹی کا ڈرائیور کو اپنی طرف مبذول کرنے کو دل لبانے والا حسین انداز میں مسکرانا یہ سب وہ قاتلانہ ہتھیار ہیں جو جان لیوا حادثات کا سبب بنتے ہیں.

سڑکوں کی حالت تو سب کے سامنے ہے لیکن ایسی سڑکوں پہ جب پائیلٹ نما غیر تجربہ کار ڈرائیورز جو نہ تو مکمل طورپہ سو سکتے ہیں . اوپر سے نشہ آور اشیا کا استعمال بھی کرتے ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ اُنکا جائرانہ رویہ، تیز رفتاری…لکهتے ہوئے بهی شرم آئے

مجھ سمیت ہم سب کے اندر یہ وہ برائیاں ہیں جن کو کوئی آدمی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا لیکن یقین کریں کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی بڑے بڑے حادثات کا موجب و موجد ہیں.

جب تک اچھے طریقہ سے گاڑی چلانے والوں کی حوصلہ افزائی اور غلط گاڑی چلانے والے کی حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی۔ تب تک ایسے حادثات رونما ہوتے رہیں گے۔

قدم قدم پہ ناکہ لگائے پولیس اہلکاروں کی یہ ذمہ داری ہےکہ اگر کوئی اچھا ڈرائیور ہے تو اُس سے پچاس کو نوٹ بٹورنے کے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کریں اورغلط طریقہ سے گاڑی چلانے والے کی حوصلہ شکنی.

اُساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ سکول میں صبح دعا کے وقت بچوں کو اس ضمن میں اُن کی ذمہ داریوں سے متعلق آگاہی فراہم کریں.

اور ساتھ ہی ساتھ علما کرام سے نہایت ہی مودبانہ التماس ہےکہ نماز جمعہ میں فتوہ بازی کے بجائے اس طرح کے معاشی مسائل اور ان کے حل کےلئے لوگوں کو خصوصی توجہ دلوائیں.

تحصیل انتظامیہ کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ اپنی تحصیل کے تمام ڈرائیور حضرات کو وہاں پہ موجود ریسٹ ہاوسز یا ٹاون کمیٹی کے دفاتر میں جمع کر کے ان کو تربیت دی جائے اور اُنھیں ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔

چونکہ یہ میرا ذاتی شعبہ ہے اور اس شعبہ سے منسلک دوست یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف ڈرائیونگ کے اصولوں پہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن نہ ہی ایسے لکھنے کا کوئی فائدہ جس پہ عمل نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسے پڑھنے کا۔

وقت آ گیا ہے کہ ہر کو ایک اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو تاکہ آئے دن ہونے والے حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے.

دریا کو کوزے میں بند کر تے ہوئے میں اسسٹنٹ کمشنر آف ہجیرہ جناب سردار زیشان نثار صاحب کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ اُنھوں نے ایک مثبت سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے رضاکارانہ ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا مقصد عوام علاقہ میں ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔

اُن کے اس نیک کام میں ہر قسم کی معاونت و تعاون کو بندہ ناچیز ایک اعزاز سمجھے گا.ساتھ ہی ساتھ میری اپنے تحصیل کے ہر فرد سے یہ عاجزانہ التماس ہے کہ ان سے مکمل تعاون کریں.

اللہ پاک اُن کو اس نیک کام میں کامیابی عطا کرے.
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے