شریف برادران کے لئے امکانات کی گنجائش

اگرچہ ماحول پاناما انکشافات سے بوجھل ، لیکن نواز شریف حکومت کم از کم ایک محاذ پر سکون کا سانس لیتی ہوئی، کیونکہ فوجی قیادت میں تبدیلی کے بعد سے سول ملٹری تعلقات کی نوعیت اور لہجے میں نمایاں تبدیلی دکھائی دیتی ہے ۔ جنرل راحیل کا سویلین حکومت کو دبائو میں رکھنے والا دستہ اور ذاتی اوصاف اجاگر کرنے والی مشنری اب عوام کی نظروں سے دور تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکی۔ مسلح افواج ، جس کے افسران اس ادارے کی ’’عظمت اور ساکھ کو اپنی مخلصانہ کارکردگی اور فرائض کی انجام دہی ‘‘ کے ذریعے بلند رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں، کی فعالیت کی جگہ معمول کے پیشہ ور مزاج نے لے لی ہے ۔ چند ماہ پہلے جب عظمت اور فعالیت کی ریٹنگ کی ارزانی تھی، اس بات کا تصو ر بھی محال دکھائی دیتا تھا۔

اس صورت ِحال نے حکومت کو موقع فراہم کردیا ہے۔ شریف برادران کی لغت میں اس کا عموماً مطلب ہوتا ہے کہ فوج اُن کے عقب میں موجود نہ رہے ۔ اس صورت میں وہ اپنے اختیارات کے استعمال میں زیادہ پراعتماد اورفعال ہوں گے ۔ تاہم اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اگر حکمران خاندان نے اس کا غلط نتیجہ نکالا، یا کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تو بھی اُنہیں یہ سہولت ہر صورت میسر رہے گی۔ اگر شریف برادران نے اس موقع کو اپنے مفاد کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرنا چاہاتو یہ یقینا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چنانچہ اس موقع کی تفہیم ضروری تاکہ سول ملٹری روابط کو ہموار رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اننگز کا اچھا آغاز افسوس ناک انجام سے دوچار نہ ہو۔ حکومت کو اس بات کا احساس کرنا ہے کہ اگرچہ فوجی کمان تبدیل ہوگئی ہے لیکن فوج تو وہی ہے ۔ اور یہ ادارہ وہی ہے جو ہوا کرتا تھا، اور جس نے آزادی کے وقت سے ہی شب خون مارنے اور قومی زندگی کے تمام پہلوئوں کو کنٹرول کرنے کا سبق ازبر کیا تھا۔

افسران کی نئی نسل کے تصورات کو کہیں زیادہ پیچیدہ عوامل نے متاثر کیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سست روی سے حاصل ہونے والی فتح کی قیمت نے پاکستان کے دفاع کے تصور کو اس کی سرحدوں سے باہرتک پھیلادیاہے ۔ اب ہر ضلع بلکہ یونین کونسل کی سطح پر بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ ملکی سلامتی کے لئے کیا جانے والا ہر کام درست اور جائزہے ۔ مالی معاملات سے لے کراسکول نصاب تک، اور میڈیا رپورٹنگ سے لے کر اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی تک، ہر سرگرمی کو فوجی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اُن کے رئیل اسٹیٹ بزنس اوردیگر کاروباری امور نے اُنہیں براہ ِراست ملکی معیشت کے ڈھانچے میں شامل کردیا ہے ۔ اس سے وہ عظیم مالیاتی اسٹیک وجود میں آیاہے جو اس سے پہلے کسی حدود کے تابع نہ تھا۔

گزشتہ پندرہ برس کے تجربات نے سویلینز اداروں کا منفی تاثر اجاگر کیا۔ مشرف دور نے افسران کو باور کرادیا کہ سیاست دان ایک بکائو مال ہیں ، اور یہ کہ اُنہیں کام نکال کرکک آئوٹ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیانی دور نے یہ سبق سکھایا کہ سیاست دانوں کو مسلسل مدد اور ہاتھ تھامے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، نیز فوج کی مدد اور مشاورت کے بغیر وہ انتخابات بھی نہیں کرسکتے تو ہنگامہ خیز عالمی حالات میں ملکی دفاع اور خارجہ پالیسی سنبھالنے کے اہل کس طرح ہوسکتے ہیں؟گزشتہ تین سالوں نے اُنہیں یہ باور کرادیا کہ تمام سیاسی طبقے ، جو اپنے تئیں اس التباسی زعم میں مبتلا کہ وہ قومی معاملات میں بالا دستی رکھتے ہیں، کوبرہم کرنے کے لئے ایک ٹوئٹر اکائونٹ ہی کافی ہوتا ہے ۔ اس دوران سویلینز کے درمیان سیاسی پانی پت بھی آباد رہا، اور وہ ایک دوسرےکی کردار کشی کے لئے ماضی کے نہاں خانوں سے کیچڑ نکال کر ایک دوسرے پر اچھالتے رہے ۔ جنرل قمر باجوہ راتوں رات فوج کی سوچ کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔ کوئی کمانڈر بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پورے دور میں بھی فوج کی ذہنیت کو مکمل طور پر تبدیل نہ کرسکیں۔ تاہم وہ یہ تو کرسکتے ہیں کہ جوطاقتور ادارہ اُن کے زیر ِکمان ہے، اُس کی توجہ کا رخ پیشہ ور امور کی طرف موڑتے ہوئے روز مرہ کے سیاسی معاملات، جن کی بازگشت قومی میڈیا میں سنائی دیتی ہے (اور بسا اوقات یہیں تخلیق بھی پاتی ہے)،سے دور لے جائیں۔ جنرل باجوہ کی نئی ٹیم بالکل یہی کچھ کرنے کی کوشش میں ہے ۔

یہی وہ سوچ ہے کہ جو حکومت کو موقع فراہم کرتی ہے ۔ اس سے بھی اہم ، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موقع بہت محدود ہے۔ اس موقع کو ایک معمول بننے کے لئے بہت سے دیگر عوامل درکار ہیں۔ ان میں سب سے اہم حکومت کی اہم امور میں فیصلہ سازی کی قوت ہے ۔ اسے میٹنگز کرنے اور پریس ریلیز جاری کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر وہ شعبہ جات ، جو تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتے ، میں فعالیت کے لئے ڈیڈلائن طے کرنے اور ان کی فعالیت کو تیز تر کرنے کی ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ فوجی عدالتوں اور کالعدم تنظیموں کے حوالے سے جاری بحث سے نیم پختہ عزم اور بے ربط پلاننگ کا اظہار ہوتا ہے ۔ غیر ریاستی عناصر پر قومی اتفاق ِ رائے کے بعد وزیر ِ داخلہ کا عجیب وغریب موقف اُس غفلت شعاری کا ایک اظہار ہے جو وزیر ِاعظم کی اپنی ٹیم پر کمان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ ملک کو نہایت لاپروائی اورغیر پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلا یا جارہا ہے ۔تقریباً ہر مسئلے کیلئے ایک اسحاق ڈار موجود ہیں۔ اس کے بعد خارجہ پالیسی کے دو مشیر، اورایک وزیر ِ دفاع ہیں، جن کا کوئی کام نہیں۔ وزیر ِاعظم نواز شریف تمام معاملات کو خود ہی چلانا چاہتے ہیں، لیکن دومشیروںکے سوا اپنے گرد کسی شخص کو نہیں دیکھنا چاہتے ۔

اُن کا زیادہ تر وقت پاناما لیکس کے بارے میں بحث کرتے ہوئے گزر جاتا ہے ۔ اب سیاسی مقاصد کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی لوٹ سیل لگائی جارہی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن لو گوں نے انتہائی پیچیدہ عالمی اور علاقائی ماحول میں پاکستان کے مفاد کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائی تھی، وہ ہمہ وقت اپنا سیاسی بچائو کرنے اور اپنے حریفوں کو شکست سے دوچار کرنے کی الجھن میں ہیں۔ وزیر ِاعظم نواز شریف کے پاس اس ’’مرکزی ٹیم ‘‘ کے سوا کوئی اور ٹیم نہیں ہے ۔ کابینہ کے پلیٹ فارم پر صرف طے شدہ امور کی رسمی منظوری دی جاتی ہے ، اورانہیں طے کرنے والا ایک ہی شخص ہوتا ہے ۔ یہ بدترین ایڈہاک ازم کی ایک مثال ہے۔ اس سے قومی یا تزویراتی معاملات پر کوئی دیرپا پالیسی سازی نہیں ہوسکتی۔

آنے والے ماہ اس پاکستان کو اس طرح چلانے کے نظام کی آزمائش کریں گے ۔ نئی فوجی کمان درپیش چیلنجز، جیسا کہ پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، سے نمٹنے کے لئے اپنا پلان بنا رہی ہوگی ۔ اس کے علاوہ نئے آرمی چیف نے اپنا کنٹرول بھی بڑھانا ہے ۔ تاہم یہ منصوبہ بہت دیر تک نہیں چلے گا اگر سویلین حکومت نے اس کی ذمہ داری نہ لی اور اسے مزید حقیقت اور عملی بنانے کے لئے اپنا مشورہ نہ دیا۔ لیکن اس کے لئے قوت ِفیصلہ اور بیدار مغزی درکار ہے ۔ ان میں سے کسی شعبے میں بھی شریف حکومت فعالیت نہیں دکھارہی ہے ۔ اس کی فعالیت بے ربط ، کنفیوژن کا شکار ، پیشہ ور صلاحیت سے تہی داماں اور ہنگامی بنیادوں پر کیے گئے فیصلوںتک محدود ہے ۔

اگر حکومت ملک کو درپیش اہم چیلنجز سے پہلو تہی کرتے ہوئے روز مرہ کی سیاست میں ہی الجھی رہی،تو اس کے ہاتھ سے امکانات کے مواقع نکل جائیں گے ۔ فی الحال آرمی چیف نے درست سگنل دئیے ہیں۔ چھائونیوں سے بے مقصد تفاخر کا اظہار اچھا نہیں لگتا۔ آرمی چیف اپنے ادارے کے اطوار پر تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کیا شریف حکومت بھی ایسا کرسکتی ہے ؟

بشکریہ: بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے