میں سلمان حیدر کا دوست کیوں بنا؟

یہ 2002 کے اوائل کی بات ہے جب میں نے مشہور مذہبی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد کے ہاتھ بیعت کی، اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد کو اپنی سب سے اولین ذمہ داری سمجھنے اور ماننے لگا۔

ستمبر 2002 میں میرا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ایم ایس سی سائیکولوجی میں داخلہ ہو گیا۔ میرا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے تھا۔ ایک پسماندہ علاقے سے آنے والے کسی بھی طالبِ علم کی طرح میں بھی شروع شروع میں اپنے اندر کئی طرح کے خوف اور ‘کمپلیکس’ لیے ہوا تھا۔

میری سلمان حیدر سے پہلی ملاقات (جو بعد میں ایک گہرے تعلق میں بدل گئی) گورنمنٹ کالج یونیوسٹی میں ہی ہوئی۔ سلمان سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں میرا سینئر تھا۔ بلا کا ذہین تھا اور ڈیپارٹمنٹ کے قابل اور ہونہار طالبعلموں میں شمار ہوتا تھا۔ نصابی سرگرمیوں میں امتیازی مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ یونیورسٹی کے ڈرامیٹکس کلب اور ڈیبیٹنگ کلب کا بھی سرگرم رکن تھا۔

اپنی اِن ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ پوری یونیوسٹی میں کافی مقبول و مشہور تھا۔ وہ کئی قومی سطح کے تقریری مقابلوں میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے لیے بہت سے اعزازات بھی جیت کر لایا۔ اپنی سماجی و نجی زندگی میں بہت ملنسار، کھُلا ڈُلا، بےباک اور انسان دوست شخص تھا۔

ایک پسماندہ علاقے سے آئے ہوئے طالبِ علم کی حیثیت سے جو اجتناب اور خوف مجھے لاحق تھے، انہیں دور کرنے اور میرے اُس نئے ماحول میں گھل مل جانے میں سب سے کلیدی کردار سلمان نے ادا کیا۔ سلمان ایک لبرل سوچ کا حامی تھا لیکن میرے مذہبی رجحان کو کبھی بھی اُس نے اپنے اور میرے درمیان تعصب یا رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

وہ بِلا خوف و خطر اُسی وارفتگی سے مجھ سے میل جول رکھتا تھا جیسے اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ رکھتا تھا۔ میرے مذہبی رجحان کو دیکھ کر وہ اکثر مزاح میں کہا کرتا تھا کہ عمران کی تو روح پر بھی داڑھی ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیوسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد سلمان نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ کے لیے کوالیفائی کیا اور پی ایچ ڈی کرنے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد چلا گیا۔

جب میں نے اپنی ایم ایس سی مکمل کی تو یہ سلمان ہی تھا جس کی تحریک پر میں نے بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ کے لیے کوالیفائی کیا اور سلمان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد پی ایچ ڈی کرنے پہنچ گیا۔ سلمان نے وہاں ہاسٹل میں اپنے ہی ساتھ مجھے اپنے کمرے میں ایڈجسٹ کروایا۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر 2 کے کمرہ نمبر 58 کے 2 مکین تھے، سلمان اور شہادت۔ ستمبر 2006 میں جب میرا ایم فل سائیکولوجی میں داخلہ ہوا تو مجھے ہوسٹل میں رہنے کے لیے کمرہ الاٹ نہیں ہو رہا تھا۔ سلمان اور شہادت نے اُس مشکل گھڑی میں مجھے اپنے کمرے میں تیسرے روم میٹ کے طور پر ایڈجسٹ کیا.

اُس وقت اُس کمرے میں 2 سنگل بیڈ تھے جو اُن دونوں نے کمرے سے نکلوا کر زمینی بستر کا اہتمام کیا کیوں کہ 2 بیڈز پر ہم تین لوگوں کے لیے ایڈجسٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔

اب صورتِ حال یوں تھی کہ دروازے کے بالکل سامنے زمین پر ہم تینوں کے بستر لگے تھے اور دروازے سے بستر کے درمیان کی تھوڑی سی خالی بچ جانے والی زمین ہمارے جوتوں کے لیے مختص تھی۔

ہمارے بستر پنکھے کے عین نیچے بِچھے ہوتے لیکن گرمی کی شدت اتنی جان لیوا ہوا کرتی تھی کہ ہمیں ہر 2 گھنٹے بعد اپنے بستروں کو پانی سے بھگونا پڑتا تھا۔

گرمیوں کے ایسے ہی ایک دن ملتان سے میرے 2 دوست اچانک پیشگی مطلع کیے بغیر آن وارد ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ رات تک وہ واپس چلے جائیں گے لیکن رات ہونے پر انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ تو رات ہمارے پاس ہی قیام کرنے کا ارادہ لیے ہوئے ہیں۔

یہ صورتِ حال میرے لیے کافی پریشان کُن تھی کہ ہم تین بھی بڑی مشکل سے اُس چھوٹے سے کمرے میں اپنے قیام کا بندوبست کیے ہوے تھے۔ اگر ہم خود کو بہت زیادہ بھی تنگ کر لیتے تو اپنے ایستادہ بستروں میں صرف ایک ہی بندے کو ایڈجسٹ کر سکتے تھے۔

سلمان میرے چہرے کی اکتاہٹ اور پریشانی کو بھانپ گیا۔ اُس نے چادر اُٹھائی اور دروازے سے بستر کے درمیان جوتوں کے لیے مختص جگہ پر چادر بِچھا کر لیٹ گیا اور اپنا بستر میرے اُن مہمانوں کے حوالے کر دیا۔

میں اُس غریب سے اصرار کرتا رہا کہ تم بستر پر آ جاؤ، میں وہاں جوتوں کی جگہ لیٹ جاتا ہوں کیوں کہ بالآخر مہمان میرے تھے، لیکن وہ یہ کہہ کر آنکھیں موند کر لیٹ گیا کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں تو مجھے یہاں سخت زمین پر یا بستر پر سونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔

جیسا کہ میں آغاز میں ہی بتا چکا ہوں کہ میں 2002 میں ڈاکٹر اسرار احمد کے ہاتھ پر بیعت ہو گیا تھا اور آج بھی خود کو اُنہی کی فکر پر عمل پیرا پاتا ہوں، اتنے عرصے میں میرے مذہبی افکار اور رجحانات میں وسعت تو ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن کمی نہیں ہوئی۔

آج کل سوشل میڈیا پر کچھ لوگ جب اپنے مذموم مقاصد کی خاطر سلمان کی کردار کشی کر رہے ہیں تو میں نے یہ ضروری جانا کہ سلمان کا اصل رُخ لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ سلمان میں مذہب بیزاری یا مذہب دشمنی مجھے تو اپنی 14 سال کی رفاقت میں کبھی نظر نہیں آئی۔ ہاں وہ بیزار تھا جہالت سے، وہ بے زار تھا فکر اور سوچ کی گُھٹن سے، وہ بے زار تھا سیاسی، سماجی اور معاشی جبر سے، چاہے یہ جہالت، گُھٹن اور جبر روا رکھنے والی قوت کوئی بھی ہو۔

سلمان عقل اور دلیل کا بندہ ہے، اسے جبر اور جہالت کے پیمانوں پر نا پرکھا جائے۔ ایسی خداداد صلاحیتوں کے حامل افراد معاشروں کا اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ میں نے اپنی اِس 14 سالہ رفاقت میں سلمان کو بنیادی انسانی قدروں میں بہت سے مذہبی ٹھیکے داروں سے ہزار ہا درجے بلند پایا ہے۔

سلمان اور میرے درمیان فکر و عمل کے تضاد کے باوجود مجھے یہ سچ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ دونوں کی باہم دوستی اور قربت میں بنیادی کردار سلمان کی وسعتِ نظری اور وسعتِ قلبی کا رہا ہے۔

سلمان کی یہ خوبی تھی کہ وہ اختلافِ رائے کو (اگر عقلی بنیادوں پر ہو) بخوشی قبول اور تسلیم کر لیتا تھا۔ وہ کسی بھی نقطہِ نظر کا تنقیدی جائزہ عقلی بنیادوں پر کیا کرتا تھا۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ میں نے اُسے اپنے ہی مکتبہٴ فکر کے افراد پر بھی تنقید کرتے ہوئے پایا۔ وہ ایک کھُلے دل کا انسان تھا جو حق بات کو تسلیم کرنے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں کرتا تھا۔

اُس کی تنقید افکار سے زیادہ اُن افکار کی بنیاد پر ظلم اور استحصال کرنے والوں پر ہوتی تھی۔ یہ بات غلط ہے کہ سلمان مذہب کے خلاف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس کی تنقید مذہب میں موجود تفریق اور مختلف غیر منطقی و غیر عقلی دلائل و نظریات پر ہوا کرتی تھی۔

یہی ہمارا پہلا مشترکہ دکھ تھا کہ مذہب کو امن کا گہوارہ کہنے والے خود کسی ایسے مشترکہ نظریہ پر کیوں نہیں پہنچ سکتے جو امن کا باعث بن سکے۔

ہمارا دوسرا مشترکہ دکھ ریاست کے کردار سے متعلق تھا۔ ہمارا یہ عقیدہ و نظریہ ہے کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق اور فلاح کا بندوبست اور حفاظت کرے۔ گویا ہم دونوں ایک فلاحی ریاست کے پرچارک ہیں۔

ہم دونوں اِس بات پر کُڑھتے تھے کہ یہ ملک (جسے بناتے وقت اِس کے بانیان نے ایک فلاحی ریاست کا خواب لوگوں کو دکھایا تھا) اپنے مقصدِ وجود کو کھو بیٹھا ہے۔

آج اس ملک میں طاقت، اقتدار اور دولت چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں، اور ظلم کی چکی میں پِسنے والی مظلوم عوام اگر اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں تو اُن پر غدار، دین دشمن یا ایجنٹ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک آواز سلمان حیدر کی تھی اور حسبِ روایت اب اُس کے لیے بھی دین دشمن اور غدار کے القابات صادر فرمائے جا رہے ہیں۔

سلمان کا اصلی جرم یہ ہے کہ اُس نے جانوروں کی طرح محض اپنی جبلتوں تک محدود رہ کر زندگی گزارنے سے انکار کیا۔ وہ یونیورسٹی کا پروفیسر تھا اور اس کی تنخواہ اس کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔

اُس کا جرم یہ تھا کہ اُس نے اپنے نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق اور بنیادی ضروریات کے لیے آواز اٹھائی۔ اُس کا جرم یہ تھا کہ وہ انسان تھا، جس نے حیوان بننے سے انکار کیا۔

یہ 2007 کی گرمیوں کے وہ دن تھے جب پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کیے جانے کے بعد وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی۔ شارعِ دستور پر منعقد ہر مظاہرے کی روحِ رواں ہوا کرتا تھا سلمان۔

ایک روز خود پر لاٹھی چارج کرنے والے پولیس کانسٹیبل کی لاٹھی بھی چھِین لایا تھا ساتھ۔ روز صبح اُٹھتا اور آمریت کی سیاہ رات کو ہٹا کر جمہوریت کی صبحِ نو کے سورج کو طلوع کرنے کی جدوجہد میں جُت جاتا۔ اِسی مسلسل جدوجہد کی تھکاوٹ تھی جس نے اُس آزاد منش آدمی کو نرم بستر کو چھوڑ کے فرش پر سونے میں بھی کوئی عار اور تکلیف محسوس نہیں ہونے دی۔

ایسے آزاد منش، محب الوطن، انسان دوست، ایثار اور قربانی کے پیکر شخص کو کوئی ہمارے دلوں سے کیسے نکال سکتا ہے؟

کیا سلمان حیدر کا جرم یہ ہے کہ وہ جاگتی آنکھوں خواب دیکھتا تھا؟ سانس لینے کی آزادی، سوچنے کی آزادی، بات کرنے کی آزادی، فکری گھُٹن سےآزادی، اپنی سوچ کے مطابق جینے کی آزادی کے خواب؟

بہت تکلیف دہ تھا وہ وقت جب اپنے اُس عزیز گمشدہ دوست کی بازیابی کے لیے ہم مظاہرہ کر رہے تھے جو کبھی خود دوسرے گمشدہ افراد کے لیے مظاہرے کیا کرتا تھا۔ آج وہ شخص خود اپنی آزادی کے لیے سراپا منتظر ہے جو کبھی دوسروں کو آزادی کے خواب دِکھانے کی جدوجہد کیا کرتا تھا۔

[pullquote]عمران بخاری قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچرار ہیں۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے