‘بلاگر’ کون؟

گزشتہ سال انہی دنوں اردو بلاگرز کی تحاریر کو اکٹھا کر کے ایک کتابی صورت میں شائع کرنے کی خواہش مجھے کئی اخبار نویسوں سے ملوانے نکلی تھی۔ کتاب چھپ چکی تھی اور تقریب رونمائی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔

مہمانان گرامی کے نام فائنل ہو چکے تھے۔ تقریب کی صدارت کے لیے جس معزز ہستی کا نام چُنا گیا تھا وہ صحافتی دنیا میں 32 سال سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں اور ملک کے ایک مشہور و معروف روزنامے کے سینئر ڈپٹی ایڈیٹر ہیں۔

ان کو دعوت دینے ان کے آفس گئے، کتاب پیش کی تو انہوں نے پہلا سوال ہی یہی پوچھا کہ اس تحریری مواد پر چیک اینڈ بیلنس کیا ہے، سوشل میڈیا پر تو کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے، اپنے بلاگ میں لکھنے والا جو چاہے لکھتا رہے، اس پر کنٹرول کون کرتا ہے؟

ایک اخبار کے ایڈیٹر کو اس طرح کی پریشانی لاحق ہونا قابل فہم ہے کہ جہاں اخبار کا ایک ایک لفظ تراش خراش اور پوری پوری ناپ تول کے ساتھ صفحات میں شامل کیا جاتا ہو، وہاں بے ربط، غیر موزوں، اور مہمل باتوں کی گنجائش کیوں کر نکل سکتی ہے۔

گزشتہ سال اکثر و بیشتر بلاگرز سے میرا رابطہ رہا، اس لیے کسی نہ کسی حوالے سے اپنے بلاگ پر لکھنے والوں سے آشنائی ہوتی چلی آئی، لیکن پچھلے سال جب مشترکہ بلاگنگ ویب سائٹس کی بہار آئی تو نئے لکھنے والوں کی ایک نئی پود نے جنم لیا۔ ان میں سے اکثریت سے میری آشنائی نہیں۔

آج کی بات کریں تو بلاگنگ ویب سائٹس اتنی موجود ہیں کہ مجھے بذات خود ایک بلاگر سب کے نام یاد نہیں۔ لیکن ان سب بلاگرز کے بارے میں ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو نام اور چہرہ رکھتے ہیں۔ ان کی کوئی نہ کوئی پہچان ضرور ہے۔ ان کی تحریر میں رابطہ شامل ہے، جہاں آپ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں، تنقید و توصیف کر سکتے ہیں۔

ایک بلاگ تخلیق کرنا یا بلاگر ہونا آپ کو کسی ایڈیٹر کی قینچی سے تو بچا سکتا ہے مگر اس طرح آپ پر ذمہ داری کا بوجھ ایک گنا بڑھ ضرور جاتا ہے۔ آپ کے تحریر کردہ مواد کے ذمہ دار آپ خود ہوتے ہیں، اس میں لکھی جانے والی تمام باتوں اور حقائق کی اخلاقی ذمہ داری آپ پر ہوتی ہے، آپ کے لکھے ہوئے اعداد و شمار کی جانچ پرکھ کرنے والا آپ کے سوا اور کوئی نہیں۔

سو اپنا بلاگ لکھنے والے ایک ذمہ داری کی ڈور سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی بلاگ ایک ذاتی ڈائری کی مانند ہے اور لوگ اپنی ذات کے آئینے میں دنیا کو دیکھتے ہیں، اور لکھے الفاظ زیادہ تر اپنے متعلقہ شعبہ ہائے زندگی پر ہی محیط ہوتے ہیں، اس لیے دنیا میں لوگ مستند آرا کے لیے بلاگز کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

جہاں ان بلاگز نے لکھنے والوں کے لیے اظہار کے نئے دروازے کھولے ہیں، وہاں کچھ لوگ سوشل پلیٹ فورم کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب نئی نسل سوشل میڈیا کی دنیا میں ہی جیتی ہو، ان کے ارد گرد جھوٹی سچی معلومات کی ملمع کاری سے متوقع نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

جہاں بے شمار بلاگرز اپنے ناموں اور برانڈز کے ساتھ سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہیں ویسے ہی کچھ بے نام اور بے چہرہ لوگ بھی اپنی اپنی مچانیں سنبھالے موقع کی تلاش میں ہیں۔ ایک بلاگر ہوتے ہوئے میری سوچ سے بالاتر ہے کہ کوئی کیوں کر کسی دوسرے چہرے کے پیچھے چھپ کر اپنے خیالات کا پرچار کرتا ہے؟

ایسے بے چہرہ لوگ کسی نہ کسی محرومی یا خوف کا شکار ہوتے ہیں، ان کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ سامنے آئیں گے تو لوگ ان کی بات سننا بھی گوارہ نہیں کریں گے یا ان کے درپے ہو جائیں گے۔ شاید اس لیے وہ عجیب و غریب ناموں اور نقابوں کا سہارا لیتے ہیں۔

ایسے وقت میں جہاں سوشل میڈیا پر لکھنے والوں پر تنقید کی جا رہی ہے میرے خیال میں بہت بہتر ہو گا کہ احباب بلاگرز اور بے نام لکھنے والوں کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ:

تیری کہانی میری کہانی سے مختلف ہے

جیسے آنکھوں کا پانی پانی سے مختلف ہے

اپنے نام اور چہرے سے لکھنے والے ہر شخص کی کہانی سوشل میڈیا کے بے نام کرداروں سے مختلف ہے۔ پچھلے دنوں اردو کے اولین بلاگرز میں سے ایک خاور کھوکھر سے پاناما لیکس پر بات ہو رہی تھی، قطری شہزادوں کے خط کو لے کر شریف فیملی پر طرح طرح کے فقرے چست کیے جا رہے تھے۔

خاور کا موقف یہ تھا کہ کھل کر تو وہی لکھ سکتا ہے جس کے پاس جعلی اکاؤنٹ ہے، ورنہ ہم جن معاشرتی اقدار کا حصہ ہیں اس میں ہم لوگوں کے عیوب پر پردہ ہی ڈالا جاتا ہے، پھر چاہے وہ کسی دباؤ کی وجہ سے ہو، کسی خوف کی وجہ سے۔

میرے خیال میں احباب کو یہ فرق جاننا ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ہر لکھنے والا بلاگر نہیں ہوتا۔ جیسے درجنوں پردہ نشین کاغذوں کے بجائے دیواروں پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تخلیقی صلاحتیں تو پبلک ٹوائلٹس میں جا کر جاگتی ہے، جس طرح ایسے سبھی لکھنے والے کو شاعر مصنف نہیں کہا جا سکتا، ٹھیک ویسے ہی سوشل میڈیا پر اپنی پہچان چھپا کر لکھنے والوں کو بلاگر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ جو لوگ بھی اپنے بلاگ لکھ رہے ہیں، وہ جب بلاگ کا نام خریدتے ہیں یا کسی سوشل پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ بناتے ہیں، اصل میں وہ بھی کسی اخبار کی طرح ایک ذمہ داری کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔ ایسی اخلاقی ذمہ داری کہ جیسے کوئی بھی ذی شعور انسان کسی محفل میں بیٹھ کر اخلاق سے گری بات نہیں کر سکتا، بالکل ایسے ہی وہ اپنے بلاگ میں بھی اس اخلاقی معیار کو برقرار رکھتا ہے۔

روایتی قاری کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سینکڑوں بلاگرز انٹرنیٹ پر خیال و خوبی کے پھول کھلا رہے ہیں، ان کو پڑھا جائے اور ان تک پہنچا جائے اور دو چار لوگ جن کی اصل پہچان سے کوئی بھی آشنا نہیں ان کو شاید بلاگر کہنا مناسب نہیں ہوگا۔

[pullquote]رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے