کشمیرکاتشخص اوراہل دانش کی بُوالعجبیاں

کشمیر کا ایک المیہ روز اول سے رہا ہے کہ ہر ایک نے اسے اپنے فائدے کیلئے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ شاید کچھ لوگوں نے دوسروں کو خوش کرنے اور کچھ نے دوسروں کے بغض میں یہ سب کیا۔ اس کی ایک مثال کچھ روز قبل مشاہدے میں آئی جب معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن مرتضی شبلی کو ایک نشست میں سننے کا موقع ملا ۔

کشمیر پر ان کی گفتگوسن کر ایسا محسوس ہوا جیسے صحافی کے بجائے جماعت الدعوۃ یا جماعت اسلامی کی کوئی شخصیت مخاطب ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو وہ ایک قوم نہیں مانتے۔ ان کے بقول تحریک آزادی کشمیر دراصل ’’تحریکِ مسلمانانِ کشمیر‘‘ ہے ، جموں کے ڈوگرہ ہندو ہوں یا کشمیری پنڈت دونوں کا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ، کشمیریوں کو پاکستان سے عشق ہے اور وہ خود کو پاکستانی تصور کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی نظر میں جنگ ایک ممکنہ حل ہو سکتا ہے ،کشمیر کے مسئلے کا حل بات چیت سے ممکن نہیں اور ایسا سوچیں بھی مت کہ مذاکرات سے کبھی کچھ ہونے والا ہے۔ کشمیری پہلے ہی30 سال سے جنگ کا سامنا کررہے ہیں اور آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑائی کے علاوہ کوئی دوسرا حل نظر بھی نہیں آتا۔ مرتضٰی شبلی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ کو بہت حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اپنی فوج کے علاوہ کشمیر میں نان سٹیٹ ایکٹرز بھی رکھتا ہے،پہلے نمبر پر ویلج ڈیفنس کمیٹیاں ہیں، دوسرے راشٹریہ سیوک سماج کے انتہاپسند ہیں اور تیسرے اخوان کے نام سے تنظیم بنارکھی ہے جو لوگوں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں۔

مرتضٰی شبلی نے کہا کہ یہ عمومی خیال مطلق غلط تھا کہ اس تحریک کا تعلق وادی کشمیر سے ہے اور یہ وادی تک ہی محدود ہے جبکہ حقیقت میں کشمیر اور جموں دونوں اس تحریک کا حصہ تھے ۔ ان کے بقول جموں اور پہاڑی اضلاع کے مسلمانوں کی قربانیاں کہیں زیادہ ہیں کیوں کہ ان کی قربانیاں 1947 ء سے جاری ہیں جبکہ واد ی میں قربانیوں کا سلسلہ90 ء کی دھائی میں شروع ہوا ہے۔

دوران گفتگوگلگت بلتستان کو انہوں نے ریاست سے لاتعلق کر دیا اور کشمیر کی شناخت پاکستان کو قرار دیااور پاکستان کا حصہ قرار دیا۔یہاں تک کہ آزاد کشمیر یا کہیں بھی خود مختار کشمیر کی بات کرنے والوں کو انہوں نے ہندوستانی پروپیگنڈے کو فروغ دینے کے مترادف گردانا۔ مرتضٰی شبلی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی صحافتی اداروں میں طویل عرصہ تک کام کر چکے ہیں اور ان کا تعلق سرینگر سے ہے۔ ان کی گفتگو سن کر حیرت ہوئی کہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنے والا ایک کشمیری اس قدر بے خبر ہے یا جان بوجھ کر کنفیوژن پیدا کر رہا ہے۔

دوران گفتگوجب سوال آنے لگے تو ہال میں موجود بیس پچیس افراد میں اکثریت کا سوال تھا کہ وہ سب کشمیر کی الگ شناخت کے حامی ہیں اور شبلی الگ پہچان کی بات کرنے والوں کو ہندوستانی ایجنٹ کہتے ہیں تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا :’’جو حقائق تھے وہ سامنے رکھ دیے ہیں ۔‘‘(یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ شبلی صاحب کی بیان کردہ باتوں کے حقائق ہونے کا پیمانہ کیا ہے)گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ریاست سے کسی طور مماثلت نہیں رکھتا لہذا وہ کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی ابتدا 22 اکتوبر 194ء کو ہوئی توانہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا ۔ کئی دوستوں نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کی تاہم سری نگر سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے کہا پاکستان سے محبت فطری ہے اور انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ پاکستان کی سرزمین پر پہنچے تو انہوں نے اس سرزمین کو چوما تھا ۔ کشمیریوں کی پاکستان سے محبت فطری ہے لیکن سولہ سال یہاں گزارنے کے بعد انہیں مسئلہ کشمیر کی اتنی سمجھ آئی کہ ’’کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں سوائے اس کے جسے جہاں دل چاہتا ہے قبضہ کر لیتا ہے‘‘۔

اس دوران جب مزیدسوالات سامنے آئے اور مرتضٰی شبلی جواب دینے لگے تو ان کے لہجے سے ’’انتہا پسندی ‘‘ (اپنا فیصلہ دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش) محسوس ہوئی کیونکہ کوئی بھی سوال پورا ہونے سے پہلے روک کر وہ جواب دینے کی کوشش کرتے نظر آئے۔محفل کا ماحول کچھ تلخ ہونے لگا تومنتظمین نے محفل کو برخاست کرنے میں ہی عافیت جانی۔

میری ذاتی خواہش ہوتی ہے کہ کشمیر یا گلگت بلتستان سے کوئی صحافی دوست آئے تو اس سے ملاقات ضرور ہو تاکہ وہاں کے عوام کی رائے اور تازہ ترین صورتحال کا علم ہو سکے اور اس سلسلے میں کسی نا کسی صحافی سے سوشل میڈیا یا اسلام آباد میں موجودگی کی صورت میں ملاقات لازماً ہوتی ہے اور صورتحال سے واقفیت ہوتی رہتی ہے۔میرا اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے آئے صحافی بہت کُھل کر بات نہیں کرتے لیکن دبے الفاظ اور محتاط لب و لہجے میں تمام صورتحال بتا دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں ’’آزادی‘‘ ضرور شامل ہوتی ہے لیکن وہ بیرونی عسکریت کے حق میں کبھی نہیں ہوتے۔

مرتضٰی شبلی پہلے صحافی ملے جو بیرونی عسکریت کے حق میں بلند آہنگ میں دلائل دیتے پائے گئے۔ اس محفل سے آنے کے بعد کچھ حقائق جو سب جانتے ہیں لیکن شاید بیان کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے، میں ان کو بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تا کہ کنفیوژن پھیلانے والے واضح ہو سکیں۔ آج جس مسئلے کو مرتضیٰ شبلی اور ان جیسے کئی احباب صرف وادی کے مسلمانوں کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں ،وہ شاید یہ بھول گئے کہ جموں میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا، پونچھ ، مظفر آباد اور میرپور سمیت کئی علاقوں سے کتنے لوگ مارے گئے اور بے خانماں ہوئے۔

آج کچھ لوگ دوقومی نظریہ کی بات کر کے کشمیر کے مسئلے کو صرف مسلمانوں کا مسئلہ باور کرانے پر کمر بستہ ہیں تو بہتر ہو گا کہ 1947ء کے خون آشام ایام میں سے کچھ تلخ یادوں کو کھنگال لیا جائے ۔ 22 اکتوبر 1947ء کو جب نان اسٹیٹ ایکٹرز(قبائلیوں) نے ریاست پر دھاوا بولا تو اس سے قبل ریاست کی خود مختاری کا فیصلہ ہو چکا تھا کیونکہ اعلان تقسیم ہند پر عمل درآمد 15 اگست کو مکمل ہو چکا تھا اور اس سے قبل لارڈ ماونٹ بیٹن خود چل کر مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس گیا تھا کہ وہ ہندوستان سے الحاق کر لے تاہم اس نے ریاست کو خود مختار رکھنے کا فیصلہ کیا اور ماؤنٹ بیٹن سے ایک ملاقات کے بعد دوسری ملاقات تک نہ کی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ 15 اگست سے پہلے تمام ریاستوں کے سربراہوں نے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا سوائے کشمیر کے۔ پندرہ اگست کو ہندوستان کی آزادی کے بعد عملاً اور قانوناًریاستیں ایک دوسرے کے وجود کو مان کر معاملات چل پڑے تھے پھر اچانک 22 اکتوبر کو ایبٹ آباد کے راستے مظفر آباد کی جانب قبائلیوں کی آمد ہوتی ہے اور قتل و غارت اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تب یہاں سے (آزاد کشمیر) غیر مسلم جان بچانے کیلئے جموں اور ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔

اسی دوران ہندوستان کی افواج سرینگر اترتی ہیں اور مسئلہ تاریخ کی اندھے کنویں کی نذر ہو جاتاہے۔ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ بھی قبائلی حملہ ہی جانا جاتا ہے کیوں کہ جب یہاں لوٹ مار شروع ہوئی تو بچے کُھچے سکھ اور ہندو بھاگ کر جموں پہنچے اور انہوں نے یہاں کے ان پر ہونے والے مظالم کی داستان سنائی تو بدلے کی آگ بھڑک اٹھی جس سے جموں میں اڑھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز نے ( جس طرف سے بھی ہوں ) کشمیر کو نقصان پہنچایا اور یہی نان اسٹیٹ ایکٹرز ہی دراصل تقسیم کشمیر کا سبب بنے۔

آج بھی کشمیر میں دونوں اطراف سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بھر مار ہے۔ شبلی صاحب جیسے کئی اور صاحبان جب ’’اسپانسر جہاد‘‘ کو درست قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسپانسر جہاد کو وادی کے عوام ویلکم کرتے ہیں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جنرل (ر)مشرف نے اپنے دور میں جب ’’اسپانسر جہاد‘‘ بند کیا تو وادی میں خوشی کی لہر کیوں دوڑگئی تھی؟آج بھی وہاں کے عوام مشرف کے اس اقدام کو سراہتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ سیز فائر لائن کے اِ س پار یعنی نیلم اور ملحقہ علاقوں کے لوگ مشرف کے لیے اچھے جذبات کیوں رکھتے ہیں؟انہی نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بدولت کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کوبار بار دہشت گردی کا لیبل لگایا جاتا ہے ،ایسا کیوں ہے؟

پھر ہم جب شناخت کی بات کرتے ہیں تو شبلی صاحب جیسوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان ہماری شناخت ہے ۔ شاید و ہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 سے ناواقف ہیں یا جان بوجھ کر کنفیوژن اور ابہام پیدا کرتے ہیں۔آج اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وادی والے قربانی دے رہے ہیں باقی حصوں کو کوئی مسئلہ اور پریشانی نہیں ۔ یہ بات کرنے والے صاحبان جموں کی جانی قربانیاں ، گلگت بلتستان کے آئینی بحران ، آزاد کشمیر کی مبہم شناخت، نمائندگی اور دیگر بنیادی نوعیت کے مسائل کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ کہ کشمیر کی شناخت پاکستان کو قرار دینا بے معنی سی بات ہے کیونکہ یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ جب تک کشمیری اپنی آواز خود نہیں اٹھائیں گے ان کا مسئلہ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ کشمیر کوہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع سمجھا جائے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کشمیر ایشو پر ایک فریق کی حیثیت سے آواز اٹھاتا ہے ۔جس سے اس مسئلے کی حیثیت دو طرفہ تنازع کی بن جاتی ہے۔ جب تک دنیا یہ نہیں مان لیتی کہ یہ دو طرفہ تنازع نہیں بلکہ کشمیریوں کی آزادی کا مسئلہ ہے ، اس وقت تک کوئی بھی پیش رفت ممکن نہیں ہے۔پھر ستم یہ کہ دانشوروں کا کشمیریوں کو قوم نہ سمجھنا شاید ان کاتعصب توہو سکتا ہے یا کوئی ’’مخفی مجبوری۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے