کیوں لاپتا کرتے ہو؟

میرے بچپن میں میری والدہ مجھے اور میرے بہن بھائی کواکثر اپنے چچاکے گھر پیر الہی بخش کالونی لے جاتی تھیں۔ والدہ کے چچا کی اولادوں میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے، بدقسمتی سے یہ بہن بھائی زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ، ان میں چھوٹے بھائی کا نام مبین انصاری تھا جو اپنے بہن بھایوں میں سب سے چھوٹے تھے اور گھر میں سب ان کو مبن کہا کرتے تھے۔ مبین نے شاید میٹرک پاس کیا تھا اس لیے انکو اول تو کوئی نوکری ملتی نہیں تھی اور جو ملتی تھیں وہ مبین کو قبول نہیں ہوتی تھی۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ وہ امریکہ چلے گئے، یہاں دو باتیں ذھن میں رکھیں کہ اس زمانے میں امریکہ جانا قطعی مشکل نہ تھا اورجب کوئی پہنچ جاتا تھا تو اپنے پیاروں سے رابطے کےلیے آج جیسی سہولتوں کا کوئی تصور نہیں تھا، صرف ڈاک کے زریعے ایک ماہ میں ایک یا دو خط آتے جاتے تھے۔

شروع شروع میں مبین کے خط جلدی جلدی آتے تھے لیکن ان کی ماں اداس رہتی تھیں، کچھ عرصہ بعد ہم جب بھی جاتے تھے وہ میری والدہ سے یہ شکوہ کرتی تھیں کہ مبین کے خط دیر سے آتے ہیں ، کچھ عرصے بعد وہ اپنے بیٹے کی جدائی کے غم میں بیمار ہوگیں اور ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنے ہوش وہواس کھو بیٹھیں لیکن وہ مبین کو نہ بھولیں اور مرتے دم تک وہ مبن مبن کہتی رہیں لیکن افسوس مبن انہیں نہ ملا۔ مبین انصاری آجکل آجکل شکاگو میں رہتے ہیں۔ آپکو یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ جب کسی ماں سے اس کا بیٹا بچھڑ جاتا ہے اورماں کو اس کے ملنے کی امید نہیں ہوتی تو ہر ماں ایسے ہی سسک سسک کر مرتی ہے۔ دعا کریں کہ یہ وقت کسی ماں، باپ بہن، بھائی، بیوی اور بچوں پر نہ آئے۔

اوپرمیں نے جس واقعہ کا ذکر کیا وہ شاید پچپن سال پرانا ہے اور اس زمانے سے لیکر شاید سال 2000 تک ایسے واقعات بہت ہی کم سننے کو ملے ہیں،اور ایسی کسی ماں کا ذکر نہیں ملا جو مبین کی ماں کی طرح سے رو رہی ہو۔ لیکن آج پاکستان میں آپکو کثرت سے ایسی مائیں مل جاینگیں جو مبن نہیں توکوئی اور نام لے لے کر روتی ہیں اور پھر سسک سسک کرمرجاتی ہیں، ایسا ہی ان باپوں کے ساتھ بھی ہورہا ہے جنکے جوان بچے لاپتہ ہورہے ہیں، بھائی بھی رو رہے ہیں اور بہنیں بھی رورہی ہیں، سہاگن بھی رو رہی ہوتی ہے اور اس کے معصو م بچے بھی۔ آئے دن پاکستانی عوام کو یہ خبریں ملتی رہتی ہیں کہ فلاں فلاں لوگ لاپتہ ہوگے ہیں اور بعدمیں ان کے ماں باپ اور باقی گھر کے افراد دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔

پانچ دسمبر 2016 کو وفاقی حکومت کی طرف سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جسٹس(ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن نے نومبر 2016کی جورپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد1276ہوگئی تھی جس میں سے صرف 65 افراد بازیاب کرائے گئے تھےاور دولاپتہ افراد کی لاشیں بھی برآمد کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے عوام کا خیال رکھے، اس کےلیے آئین اور قانون بنایا جاتا ہے تاکہ سب ملکر اس پر عمل کریں اور ملک کے تمام عوام اپنی اپنی حیثیت میں ملک کی خدمت کریں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک بہت ہی آسان کام ڈھونڈ لیا ہےکہ کون اس جھنجٹ میں پڑئے کہ ثبوت جمع کرئے، عدالت میں پیش کرئے اوربعد میں ان ثبوتوں کوسچا ثابت کرئے۔آج حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اب اپنا یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ جو بھی انکے خلاف آواز اٹھائے چاہے وہ جائز ہی کیوں نہ ہو اس کو اغوا کرکے لاپتہ کردو اور تشدد کرکے مار دو۔

پاکستان میں آجکل سوشل میڈیا پر انتہا پسندی کے خلاف سرگرم ہیومن رائٹس بلاگرز کو غائب کیا جا رہا ہے تو دنیا بھر میں اس بے انصافی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے مطابق ’’میں بھی کافر توبھی کافر‘‘ جیسی شہرہ آفاق نظم کہنے والے شاعر، مصنف، ماہر تعلیم اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکن پروفیسرڈاکٹر سلمان حیدربھی ان دس لاپتہ کارکنوں میں شامل ہیں جو گزشتہ دس دن سے لاپتہ ہیں۔سوشل میڈیا پر ہی زیادہ تر مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے یہ افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ ڈاکٹرسلمان حیدر اور ان کے ساتھی بھینسا، موچی اور روشنی نام کے ایسےپیجز چلا رہے تھے، جو کہ اسلام اور افواج پاکستان کے خلاف بہت ہی بہودہ پروپگنڈہ کررہے تھے۔

اگرواقعی یہ صحیح ہے تو میں ڈاکٹرسلمان حیدر اور ان کے ساتھیوں کےلیے کڑی سے کڑی سزا کا مطالبہ کرتا ہوں، ان تمام پر سائبر کرائم لا کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور الزام ثابت کرکے اس قانون کے تحت موت کی سزا دلوائی جائے، لیکن اگر ان پیجز سے ان افراد کو کوئی تعلق ثابت نہ ہوپائے تو ان افراد سے معذرت کرکے جلد سے جلد انہیں فوری طور پر باعزت بری کیا جائے۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے سینیٹ میں اس معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت شہریوں کو غائب نہیں کرتی ہے اور وہ ان افراد کی رہائی کےلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں تاکہ ان کے تعاون سے بازیابی ممکن ہو سکے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب بقول آپ کے ایک ساتھی وزیر خواجہ آصف کے کہ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے،تو آپ پھر ان فرشتوں کا نام بتادیں جنہوں نے اب تک تقریباً 1300افراد کو لاپتہ کیا ہے۔ ہمارئے حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بلا کسی تفریق اور بلا کسی نظریاتی اختلاف کے ہر جبری لاپتہ فرد کے دفاع کے حق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ حساس اداروں کے پاس حقیقت میں اتنی معلومات ہوتی ہیں کہ وہ با آسانی کسی بھی بیرونی امداد پر چلنے والے فرد، گروہ یا فتنہ ساز کا منہ وہ ثبوت دکھا کر بند کر سکتے ہیں۔ اسکے لئے کسی کو غائب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

سوشل میڈیا پر یہ تاثر عام پھیلا ہوا ہے کہ حال ہی میں غائب ہونے والے افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتار کیا گیا ہے یعنی فوج تو کوئی مسئلہ نہیں پاک فوج کا ایک ایک جوان اور جنرل قمر جاوید باجوہ سب کے سب پاکستانی ہیں،جنرل (ر) راحیل شریف بھی سچے پاکستانی ہیں جنہوں نے آپریشن ضرب عضب کے زریعے دہشتگردوں کی کمر توڑی ہے۔ نہ ہی کبھی جنرل (ر) راحیل شریف اور نہ ہی جنرل باجوہ کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ منتخب جمہوری حکومت سے بالاتر ہیں، اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے ذمہ دار وزیراعظم نواز شریف اوروزیر داخلہ ہیں۔

افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دارالحکوت اسلام آبادمیں بھی ایک ایسا شخص بھی محفوظ نہیں جو ظلم کے خلاف آواز اٹھائے لیکن اسلام آبادمیں ہی دہشتگرد، کالعدم تنظیمیں اور ان کے کارکن سر عام گھوم رہےہوتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے عزیز وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مہمان بھی بن جاتے ہیں۔ جو بھی ذیلی قوانین بنتے ہیں وہ دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم نہیں ہو سکتے۔

اگر قانون کسی کو نوے دن حراست میں رکھنے کا اختیار دیتا ہے تو زیر حراست افراد کے خاندان کا یہ حق ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ان کے گھر کا ایک فردحکومت کے زیر حراست ہے۔اور جب جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر کوئی ماں مبن مبن پکارتی پکارتی مرجاتی ہے، آپ صرف ایک فرد کو لاپتہ کرکےاس فرد کو ہی نہیں بلکہ اس کے پورے خاندان کا قتل کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گرفتارہونے والے کے قریبی لواحقین کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے کہ ان کے گھر کا فرد قانونی حراست میں لیا گیا ہے۔ اگر یہ نہ بتایا جائے تو اغوا اور قانونی حراست میں کیسے فرق کیا جائے گا۔ جو بھی ذیلی قوانین بنتے ہیں وہ دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم نہیں ہو سکتے۔فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق کے دور میں حبیب جالب نے کہا تھا:۔

حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں

کسی زمانے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست کا رواج تھا، لیکن اب پاکستان میں نظریاتی اور اصولوں کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ اب صرف شدت پسندی، مفاد پرستی اور منافقت کی سیاست ہوتی ہے۔ ہمارئے ہاں دہشتگردوں کے ہامی جوسیاسی میدان میں اکثر ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر سلمان حیدر اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری پر جس طرح سے خوش ہوئے ہیں بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بانجھ عورت کے ہاں غیر متوقع طور پرلڑکا پیدا ہوا ہے۔ مذہب فروش منہ بھر بھر کے لبرلز کو گالیاں دے رہے ہیں۔ ان میں سےاکثریت کو شایدیہ پتہ بھی نہیں ہوگا لبرل کہتے کسے ہیں۔ ل

برلز کو گالیاں دینے والے مذہب فروش دراصل وزیراعظم نواز شریف کو گالیاں دے رہے ہیں کیونکہ چار نومبر 2015 کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ "عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے” اور اس کانفرنس کے چند روز بعد ہی کراچی میں دیوالی کے موقعے پر وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ "میں مسلمانوں کے علاوہ ہندووں، سکھوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا بھی وزیراعظم ہوں۔ میں آپ کا ہوں، آپ میرے ہیں۔ مجھے ہولی پر بلائیں اورجب میں آوں تو مجھ پر رنگ ضرور پھینکیں”۔

اُن کا کہنا تھا کہ قوم میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا میرا مشن ہے، تمام مذاہب کے لوگ ہم آہنگی کو فروغ دیں، ظالم کے خلاف آپ کے ساتھ کھڑاہونگا۔ لہذا دہشتگردوں کے حامی اورمذہب فروشوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے لبرل وزیراعظم کا کچھ علاج کریں۔

ایسے بہت سارئے معصوم پاکستانی ہیں جن کو صرف یہ معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اسلام ان کا دین ہے لیکن مذہب کے بارئے میں ان کی معلومات کچھ نہیں ہوتیں۔ مذہب کے ٹھیکیدار ان معصوم لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ یہ جوشخص یا یہ جو لوگ حقوق کی بات کرتے ہیں دراصل یہ مذہب کے خلاف ہیں اور ہم ان کو لبرل کہتے ہیں اور یہ مسلمان بھی نہیں ہیں، لازمی بات ہے یہ بیچارے لبرل سے نفرت کرتے ہیں اور انہی میں ان کم عمر بچوں کو جنہوں نے ابھی دنیا بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیکھی ہوتی ہے دہشت گرد بناکر کہیں بھی پھٹ کر اور دوسرے بے گناہوں کو مار کر سیدھا جنت میں بھیج دیا جاتا ہے۔

آج ایسے ہی دوستوں کےلیے تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے کہ لبرل کسے کہتے ہیں اور لبرل ازم کیا ہے۔ ایک بات ذھن میں رکھیے گا کہ پاکستان میں لبرل ازم کے حامیوں میں نہ تو صرف مذہب سے بیزار لوگ شامل ہیں اور نہ ہی مادر پدر آزادی کے حامی، کیونکہ یہ سب ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو مذہب کا بہت احترام کرتا ہے، اور سماجی اقدار کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں۔

ذیشان ہاشم اپنے مضمون "لبرل ازم کیا ہے؟” میں لکھتے ہیں کہ “لبرل ازم سیاسی، سماجی اور معاشی تصورات کا ایسا مجموعہ ہے جس کی بنیاد شخصی آزادی، انصاف اورمساوات پرقائم ہے، اس کا دائرہ کارمحض سیاست سماج اور معیشت تک ہی محدود ہے۔ لبرل ازم میں جمہوریت، شہری حقوق، آزادی اظہار رائےاورحق اجتماع کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ لبرل ازم میں مذہبی آزادی ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مذہب یا نظریہ کو اپنی عقل و بصیرت سے بہتر جانے، اس پر عمل کرے ۔

مذہبی آزادی کے بغیر لبرل ازم کی بنیادیں قائم نہیں رہ سکتیں، دوسرے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ جو چاہے خریدے یا بیچے۔ جائیداد رکھنے کا ہر فرد کو حق حاصل ہے۔ ریاست انتظامی اخراجات کے لیے لوگوں سے ٹیکس وصول کر سکتی ہے مگر وہ اس کے خرچ میں جوابدہ ہے ۔ ٹیکس کا مصرف محض شہریوں کی فلاح و بہبود اور ملکی دفاع ہونا چاہیئے” ۔ ان تمام باتوں سے اتفاق رکھنے والے فرد کو لبرل کہا جاتا ہے۔

ذیشان ہاشم اپنے اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ”لبرل ازم زمان و مکان کے بارے میں بہت حساس ہے۔ ہر ملک کا لبرل ازم اپنی تشریحات میں مختلف ہے مگر شخصی آزادی، انصاف، اور مساوات کی بنیادیں ہر جگہ مشترک ہیں۔ اس میں ہر عہد کے اعتبار سے ارتقا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں لبرل قوتیں ویلفیئر اسٹیٹ کی حامی ہیں تو یورپ میں لبرل قوتوں کا موقف یہ ہے کہ حکومت محض ادارہ جاتی انتظام قائم کرے، ہر شخص اپنی محنت اور ذہانت سے اپنے لیے ویلفیئر کا خود ہی بندوبست کرسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی لبرل ازم یہاں کی تاریخ ثقافت اور شہریوں کی امنگوں کے مطابق ہی عملی و فکری بنیادوں پر قائم ہو سکتا ہے جن کی بنیاد ہر صورت میں شخصی آزادی، انصاف، اور مساوات پر قائم ہوگی”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے