گونگے دستور، اندھے فرمان

موسم بدل رہا ہے مگر پاکستان میں سیاست کا موسم سدا بہار ہے۔ انتخابات آتے اور جاتے رہتے ہیں حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، کردار بدلتے ہیں باقی سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے۔ حکومت کا ایک کردار ہے اور اپوزیشن کا دوسرا، حکومتی جماعت اپنی حماقتوں کو بھی کارنامہ بنا کر پیش کرتی ہے اور اپوزیشن حکومت کے درست کام کو بھی مشکوک بنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں عوام گھانس پھونس کی طرح روندے جاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ موروثی سیاست نے ریاست کے نطام کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ تو کسی کو پتہ نہیں کہ آئندہ انتخابات کون جیتے گا مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔

سیاست کے سنیما پر ایک ہی فلم چلتی ہے بس انتخابات کے ذریعے اسے ری میک کر دیا جاتا ہے۔ ذرا ماضی میں جھانکیں پیپلز پارٹی کے دور میں سرے محل اور زرداری خاندان کے کرپشن کے دیومالائی قصے ہر زبان پر تھے۔ اپوزیشن نے حکومت کا ناطقہ بند کر رکھا تھ، اسٹیبلشمنٹ پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ بس یوں لگتا تھا کہ حکومت اب گئی کہ جب گئی۔ آج پاناما لیکس اور شریف خاندان سے ملک کا گلی کوچہ گونج رہا ہے، ہر روز حکومت جانے کے تجزیے کیے جاتے ہیں۔ س وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاناما لیکس اور شریف خاندان کا کیا بنے گا؟ معاملہ عدالت میں ہے سوال، جواب اور دلائل کا سلسلہ جاری ہے، دھڑا دھڑ بریکنگ نیوز، مصالحے دار کرنٹ افیئرز شوز، چٹ پٹی ہیڈلائنز، نت نئے تجزیے و تبصرے، مگر ہو گا کیا یہ مجھے پتہ نہیں، ہو سکتا ہے کہ آپ کو پتہ ہو، مگر کچھ فرمانے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیجئیے گا کہ سرے محل کا معاملہ بھی عدالت میں تھا اور منصف تھے جسٹس افتخار چوہدری جیسے، پھر اس معاملے کا کیا بنا، ایک وزیر اعظم کو گھر تو جانا پڑا مگر کیا کچھ ثابت ہوا ؟

جب ن لیگ اپوزیشن میں تھی تو پیپلز پارٹیوں کی من مانیوں، کرپشن اور ملک کی ابتر صورتحال پر لتاڑتی تھی، اب یہی کردار پیپلز پارٹی ادا کر رہی ہے۔ اگر بالفرض محال پیپلز پارٹی کی حکومت آ جاتی ہے تو صرف پوزیشن تبدیل ہو جائیگی، وہی بیانات، وہی تنقید حتیٰ کہ ڈائیلاگ اور ہو بہو تبصرے ن لیگ کے حصے میں آ جائینگے۔ مگر دونوں جماعتیں تمامتر اختلافات کے باوجود چند بنیادی جمہوری امور پر متفق ہیں۔ زرداری اور شریف خاندان پاکستان کے چند امیر ترین خاندانوں میں شامل ہیں۔ بات صرف پاناما لیکس تک محدود نہیں بلکہ یہ دونوں خاندانوں کی بڑھتی دولت کی سیڑھی شکوک و شبہات کی دھند میں روپوش ہے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت صرف یہی دونوں خاندان سنبھال سکتے ہیں، پھر رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے، باقی سب درباری تصور کیے جاتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو شہری حکومت کا نظام یعنی ناظمین یا کونسلرز بالکل پسند نہیں کیونکہ مالی وسائل دسترس سے نکل کر نیچے پہنچ جاتے ہیں۔ سب سے بڑی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں جماعتیں عوام کے دکھ درد میں تڑپتی رہتی ہیں خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، اس کے باوجود نجانے کیوں پاکستانی عوام غربت کی دلدل میں دھستے چلے جا رہے ہیں۔ یہ کسی سے چھپا نہیں کہ زرداری اور شریف خاندانوں کی عظمت، دولت اورجائیداد سیاست کی مرہون منت ہے اور یہ بتانے کیلئے کسی سیاسی تجزیہ کار، جوتشی یا نجومی کی ضرورت نہیں کہ مستقبل قریب میں تخت رائیونڈ پر مریم نواز اور تخت لاڑکانہ پر بلاول جلوہ گر ہونگے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تیسرا آپشن تحریک انصاف نظر آتی ہے، کچھ امید باندھی جا سکتی ہے کیونکہ ابھی تک اسے وفاق میں آزمایا نہیں گیا ہے۔ تحریک انصاف کے حکومت میں خیبر پختونخوا میں کچھ تبدیلی تو ضرور آئی ہے مگر اتنی نہیں جس کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ عمران خان کے آس پاس کچھ نئے اور توانا چہرے نظر آتے ہیں تو ساتھ ہی آزمودہ اور مشکوک صورتیں بھی نمایاں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں بھی لاکھ جمہوریت کے باوجود عمران خان سے سے اختلاف کسی صورت قابل قبول نہیں۔ بہرحال عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کوئی ذی شعور ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر ان کے الزامات سے انکار نہیں کر سکتا۔ شاید عمران خان کی مقبولیت کئی گنا بڑھ جاتی اگر تحریک انصاف خیبر پختونخوا کو گڈ گورننس کی مثال پیش کر کے الیکشن لڑتی مگر ایسا نہ ہو سکا۔

بہر کیف اب انتخابات کا موسم شروع ہونے والا ہے بلکہ ن لیگ میں تو شروع ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم مسلسل عوامی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں اور اب بجلی اور دیگر منصوبوں کے افتتاح بھی تواتر کیساتھ ہونگے۔ سی پیک سے منسلک مختلف منصوبوں کی افتتاحی تقاریب بھی شروع ہو جائینگی جو در حقیقت ن لیگ کی تقویت کا باعث بنیں گی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی آصف زرداری کی واپسی کے بعد اپنی حکمت عملی تبدیل کر چکی ہے، پاناما لیکس پر حکومت کے خلاف بلاول کا اعلان کردہ احتجاج اور لانگ مارچ کی بساط لپٹ چکی ہے۔

یقینی طور پر حکومت مخالف احتجاج کی منسوخی صرف بلاول نہیں بلکہ پارٹی کی پنجاب قیادت کیلئے بھی ایک دھچکہ ہے، پیپلز پارٹی اندرونی تبدیلی سے دوچار نظر آ رہی ہے اور آصف زرداری مفاہمت کی بساط بچھانے پر توجہ دینگے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پیپلز پارٹی ابھی انتخابی مہم کیلئے قطعی تیار نہیں۔ تحریک انصاف فی الوقت حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں بھرپور جنگ لڑ رہی اور شاید سڑکوں پر بھی آ جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ 2018 میں ہونیوالے انتخابات میں اصل مقابلہ ان تینوں جماعتوں کے درمیان ہو گا باقی تقریبا تمام جماعتیں بقول نعیم بخاری اسٹپنی کا کردار ادا کرینگی۔ اگر پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت دبائو کا شکار ہوتی بھی ہے تو ممکن ہے کہ انتخابات کا انعقاد کچھ جلد کروایا جائے، اس کے باوجود فی الحال ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کے ن لیگ انتخابی اکثریت حاصل نہ کر سکے۔

پاکستان میں سیاست اور الزامات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ غداری اور سیکورٹی رسک قرار دینے کی باتیں تو ماضی میں بھی ہوتی رہیں اور رفتہ رفتہ کرپشن کے الزامات سیاست کا حصہ بنتے چلے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی کرپشن کا جن آدم بو، آدم بو کرتا ہر انسان کو کھانے کے درپہ ہے۔ شاید ہی کوئی جماعت ہو جو اس سے مبرا ہو، کرپشن سے عام انسان، ایک ووٹر سب سے زیادہ متاثر ہے۔ نجانے کیا جادو ہے کہ سنگین الزامات کے باوجود ہر بااثر سیاستداں باعزت بری ہو ہر کر تمام الزامات کو سیاسی انتقام کا عنوان قرار دیتا ہے۔ نہ ثبوت پیش ہو پاتے ہیں نہ گواہ، قانون منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ ملک میں ایک سیاسی گٹھ جوڑ بن چکا ہے جو بیس کروڑ عوام کے خوابوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام انہی چہروں کو منتخب کرتے ہیں، تو پھر کس کو دوش دیا جائے، بقول ساغر صدیقی

دستور یہاں بھی گونگے ہیں، فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے، ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں، عنوان یہاں بھی اندھے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے