آزادکشمیرکیاجانے بجلی کیابلاہے!

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفراباد میں آج کل کچھ اس قسم کی گفتگو ہوتی ہے۔

’’موبائل کیوں بند رہا پورا دن تمہارا ‘‘ ماں گھر میں داخل ہوتے بیٹے سے پوچھتی ہیں تو جواب ملتا ہے ’’ماں پتہ تو ہے موبائل چارج نہیں تھا ، اب تو پاور بنک کی چارجنگ بھی ختم ہوگئی ہے ‘‘ ۔

’’میرے لیپ ٹاپ کی چارجنگ ختم ہے ، کیا میں آپ کے لیپ ٹاپ سے ایک میل کر لوں ؟‘‘ انتہائی لجاجت سے آپ کسی سے درخواست کریں ’ ’ارے دیکھ لیجیے اس منحوس کی بھی بیٹری ختم ہے ، ہمارے یو پی ایس کی چارجنگ بھی ختم ہے ‘‘

اکثر گھروں سے آواز آتی ہے ’’بھاگو بھاگو موٹر لگاو بجلی آئی ہے ‘‘ زندگی داو پر لگا کر چار چار سیڑھیاں پھلانگ کر موٹر تک پہنچیں اور بٹن دبانے پر بھی موٹر نہ چلے تو گمان ہوتا ہے ’شاید موٹر کی تار خراب ہے یا کوئی اور مسئلہ ‘ پھر گھر والوں کو آواز دیتے ۔ جواب ملتا ہے ’’ واپس آ جاو بجلی پھر چلی گئی‘ ‘
’’ارے تین روپے کی ایک فوٹو کاپی ، کچھ تو خدا کا خوف کرو بھائی ‘‘ ۔’’محترمہ جنریٹر لگا کر کاپی کرتے ہیں ، پٹرول ڈالتے ہیں اس میں دکاندار اتنی بیزاری سے جواب دے گا جیسے لوڈ شیڈنگ کے واحد ذمہ دار ہم ہی ہیں ‘‘۔

’کیا بات کرتے ہیں آپ ؟ ایک سادہ زنانہ سوٹ کے 800 روپے درزی کی دکان پر ہم لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے۔
’میڈم جنریٹر پر سلائی ہوتی ہے ، آپ کو نرخ اچھا نہیں لگتا تو جائیں گھر سی لیں ‘ ۔

ایک مریض کو الٹرا ساونڈ کروانے لے گئے تو صبح دس بجے وہاں پہنچے شام چھ بجے کا نمبر ملا پر رش اتنا کہ انتہا نہیں ، پوچھا کہ اس قدر رش کیوں ہے ؟ جواب ملا ’ بجلی نہیں ہوتی ‘ اور تو اور سردی میں منہ دھونے سے ڈرنے والوں کے لئے بھی گھڑا ہوا بہانہ موجود ہے پانی نہیں تھا یا پانی گرم نہیں تھا۔

ہم نے بجلی کی 20 گھنٹے سے زائد کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالی تو فیس بک پر احتجاج اور جہاد کرنے والوں میں‌سے ایک نے مزاج کے مطابق کمنٹ کیا ’بجلی انگریزوں کی ملعون و مطعون پیداوار ہے جتنی دیر یہ نہ ہو ہم گناہ سے بچے رہتے ہیں ، اندازہ ہوا کہ ہمارا دامن گزشتہ ایک ہفتے سے ( جب سے مظفرآباد ہیں )گناہوں سے اس قدر پاک ہو گیا ہے کہ ہم اگر نچوڑیں تو فرشتوں کا وضو کرنا بنتا ہے ، اور ایک اور بے بس کردینے والا احساس ہوا کہ ہم انگریزوں کی اس ”ملعون ایجاد” کے کس قدر عادی ہیں کہ زندگی کا کوئی ’پرزہ‘ صحیح سے کام کرتا نہیں لگتا جب تک یہ بجلی نہ ہو۔اس کے باوجود ہم مکمل چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔

کون کہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے ؟ لگ تو یوں رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ ’’ضرورت سے زیادہ برداشت‘ ‘ کے دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ عوام کو تو خیر مہمل سے احتجاج کر کے بیٹھ جانے کی عادت ہے ، خیال یہ آتا ہے کہ حکمران بھی تو یہ سب جھیل رہے ہیں۔ ان کے یو پی ایس جنریٹر آخر کتنی دیر کام کرتے ہوں گے لیکن ان کی وفاداری اطاعت شعاری اور برداشت کے صدقے جائیے کہ یوں راضی برضا ہیں جیسے کچھ بول پڑے تو نماز عشق ٹوٹ جائے گی۔

یہ آزاد کشمیر کا دارالحکومت اور میرا محبوب شہر مظفرآباد ہے ۔ اس ریاست سے جو 1500 میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہے اور آزاد بھی کہلاتی ہے۔ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اپنے نام میں لفظ ’آزاد‘ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے صرف آبی وسائل سے 5000 میگاواٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔

ایک تاریخی افواہ ہے کہ ایوب خان سے اس وقت کے امریکہ کے صدر نے پوچھا کہ آپ مسئلہ کشمیر پر اتنا پریشان کیوں ہیں ؟ ایوب خان نے جواب دیا ’’پانی کا مسئلہ ہے‘‘ تو امریکی صدر نے منگلا ڈیم بنوانے اور اس میں مدد کرنے کا کہہ کر اپنے تئیں مسئلہ کشمیر حل کر دیا۔ منگلا ڈیم 60 کی دہائی میں بنا اور تب سے اب تک منگلا کم و بیش1000 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ کو دے رہا ہے جس کا سالانہ بجٹ پوری ریاست کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ رہا ہے۔

پاکستان کے تمام صوبے بجلی کی پیداوار پرتقریبا 7 روپے فی یونٹ کے حساب سے وصول کرتے ہیں جبکہ منگلا پر کئی بار مطالبہ کرنے پر بھی آج تک منگلا کی رائلٹی ریاست کا نصیب نہ بن سکی۔ اس کے برعکس اکثر اس احسان بھرے جملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ میرپور کے لوگوں کو ان کے گھروں اور آباء و اجداد کی قبروں کی قربانی کے بدلے میں ولایت کے ویزے دے دئیے گئے تھے اب یہ بھی یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے کہ انہی ولایت کے ویزے والے کتنا پیسہ زرمبادلہ کے طور پر بھیجتے ہیں ۔

منگلا پروجیکٹ کے علاوہ وادی نیلم میں جاگراں(فیز 1 اور ٹو) اور کیل بجلی گھر بھی کام کر رہے ہیں۔ جن سے تقریبا 250 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے ۔ دریائے نیلم گنجان آباد شہر مظفرآباد کے بیچوں بیچ گزرتا ہے ، مظفرآباد کی ساری خوبصورتی اس دریا کے باعث ہے۔ اس کے علاوہ وہ سارے شہر کا کوڑا کرکٹ بھی بہا لے جاتا ہے۔ گرمیوں میں شام کو آدھا شہر دریا کنارے گرمی سے بچنے کے لئے اکٹھا ہو جاتا ہے۔

اس دریا کاپانی 2018 میں رخ موڑ کر نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی نذر کر دیا جائے گا اور یہ دریا ایک چھوٹی سی ’کَٹھی‘ یا نالے کی شکل میں شہر کے درمیان سے گزرے گا ، مظفرآباد کے ماحول اور آب و ہوا پر اس کے اثرات کیا پڑیں گے ؟ یہ ایک لمبی بحث ہے جس پر پہلے کئی بار لکھا جا چکا ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ اس نیلم جہلم پروجیکٹ پر حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان کوئی معاہد ہ نہیں ، رائلٹی کتنی ملے گی ؟ جو اس کے ماحولیات پر مضر اثرات ہوں گے ان پر قابو پانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں گے ؟ اس طرح کی کسی بھی بات پر حکومت پاکستان کوئی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے اور آزاد کشمیر کے حکمران بھی تھوڑ بہت ممیا کر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔

وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر اقتدار میں آنے سے قبل منگلا کی رائیلٹی اور آزاد کشمیر کے دوسرے حقیقی حل طلب مسائل پر کبھی کبھار آواز اٹھایا کرتے تھے۔اقتدار میں آنے کے بعد ان کا رویہ مبہم ہے۔ وہ جو باتیں پہلے بہت دھڑلے سے کیا کرتے تھے اب بہت سوچ سمجھ کے کر رہے ہیں اور سوچنے سمجھنے میں بہت سی باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں اور ان ہی’’ان کہی خواہشوں‘‘ میں سے یہ بھی ہیں اور ان کی پارٹی کے باقی لوگ صابر و شاکر ہیں۔

ان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس بار جن عوام نے ریاست پر چالیس سال حکمرانی کرنے والی مسلم کانفرنس اور لگ بھگ بیس سال حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کو بری طرح رد کر کے ان کو اقتدر بخشا ہے وہ عوام اپنے مسائل حل نہ ہونے پر ان کو بھی پویلین کی راہ دکھا سکتے ہیں، لوگوں میں دن بدن شعور بڑھ رہا ہے ، شعور اس کو نہ بھی کہیں تو اپنے سیاسی و سماجی مسائل کا کسی قدر ادراک ہو رہا ہے۔ اب صرف نوکریوں کے جھانسے پر ووٹ نہیں مل سکتا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کو عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنی ہے تو حقیقی مسائل کے لئے آواز اٹھانی ہوگی۔

اگر عوام کے ان مسائل کی جانب پاکستان حکومت نے بھی توجہ نہ دی تو نتائج ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں۔ معاشی محرومیاں بغاوت کا باعث بننے والے عوامل میں سب سے اہم ہیں۔ بلوچستان کے حالات سے سبق سیکھنا چاہئے ۔کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ غیر مشروط وفاداری رکھتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ ان کی اس وفاداری کو ان کے ظرف سے زیادہ نہ آزمایا جائے ورنہ یہ ہاتھوں کی لگائی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑ سکتی ہیں۔

ابھی نیلم بہہ رہا ہے تو عوام کو زیادہ ادراک نہیں ہے ، جب یہ خشک ہو جائے گا تو وہ بہت سارے مسائل کو اس کے ساتھ جوڑیں گے۔ اور وہ مسائل حل نہ کیے گئے تو عوام کے رد عمل کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت ہماری مثال یہ ہے ‘ہم اندھیروں کو گھر میں بلا کر اُن کے گھر میں اجالا کریں گے۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے