موت کے بعد بھی فرقہ بازی کیوں؟

7دسمبر 2016 کا دن ان 47افراد کے لئے زندگی کا آخری دن ثابت ہوا جو پی آئی اے کے طیارہ نمبر 661جس میں جنید جمشید ان کی اہلیہ ،ڈی سی چترال اپنی فیملی سمیت اور ملکی اور غیر ملکی باشندوں سمیت 47افراد سوار تھے جس وقت یہ خبر ملی کہ پی آئی اے کا طیارہ 661 حویلیاں کے قریب گر کرتباہ ہوگیا ہے تودماغ جسے سن ہوگیا، ابھی دماغ اسی کشمکش میں تھاکہ نہ جانے کون ہوں گے جو اس طیارے میں سوار تھے کہ اچانک جنید جمشید کی بھی اس طیارے میں سوار ہونے کی اطلاع ملی .

افسوس ناک خبر کے سننے کے بعد اللہ سے سب کی مغفرت کی دعاکی اور ان کی فیملی کو اللہ صبر عطا فرمائے کہا، وقفے وقفے سے سب مسافروں کے اعضاء ملنا شروع ہوگئے ، جنید جمشید کی شناخت ایک ہفتے کے بعد دانتوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعہ ہوئی، ان کی تدفین دارالعلوام کورنگی کے قبرستان میں کر دی گئی۔ مگر یہ ایک ہفتہ جنید جمشید کی فیملی کے لئے انتہائی اذیت ناک ،تکلیف دہ اور درد ناک تھا کیو ں کہ جنیدجمشید کی شہادت کے بعد لوگوں نے ان کے خلاف اپنی رائے، تجزیے اور خیال پیش کیے .

کسی نے کہا کہ اچھا ہوا مر گیا،کسی نے کہا کہ گستاخ اہل بیت کو کفن بھی نصیب نہ ہوا ،کسی نے کہا کہ اچھا ہوا جل کر راکھ ہو گیا،کسی نے تو یہاں تک کہ دیا کہ منکر تھا .جب ہی ہڈیاں اور اعضاء الگ الگ ہو کر راکھ ہوگئے ۔نعوذ بااللہ اس قدر کسی شخص کو ذلیل و رسوا کرنا جو اس دنیا سے کوچ کر گیا ہو۔ جبکہ ہمیں نہیں پتا کہ ہم کس طرح ،کس حالت میں اس دنیا سے کو چ کر جائیں گے ،ہمیں کفن بھی نصیب ہو گا کہ نہیں رب ہی جانے پھر کیوں اس شخص کو اس کی فیملی کو ذلیل و رسوا کریں جو سر عام معافی مانگ چکا ہو،رب کے حضور سچے دل سے پشیماں ہو۔

جب سچے دل سے کو ئی معافی مانگتا ہے تو رب بھی اسے معاف کر دیتا ہے کیوں کہ یہ معاملہ رب اور جنید جمشید کاتھا ہم جیسے چھوٹی سوچ رکھنے والوں کا نہیں تھا . ہم اپنے آپ کو کیوں اس قدر عالم ،فاضل اور غلطیوں سے پا ک سمجھتے ہیں کہ کسی مرحوم کو اس قدر برا بھلا کہہ ڈالے کہ وہ غلط اور ہم صحیح ۔جنید جمشید کے اعضاء جسم سے الگ کیا ہوئے لوگوں نے فتووں کی منڈی لگا لی.

اگر جنید جمشید اتنے ہی گناہ گار تھے اور ان کے گناہوں کی سزا اللہ نے ان کو ان کے اعضاء الگ کرکے دی تو میرا ا س دنیا کے لوگوں خاص کر مسلمانوں اور پاکستانیوں سے سوال ہے کہ کربلا کے واقعے میں حضرت علی عباسؓ کے دونوں بازوؤ ں کا جسم سے الگ ہوجانا، سر کا کٹ جانا کس پیمانے پر رکھیں گے ؟کربلا کے بہت سے شہداء کے سر تن سے جدا کر دیئے گئے ،16 دسمبر2014 کو اے پی ایس کے واقعے میں 150معصوم بچوں ،اساتذہ اور فوجی اہلکاروں کے اعضاء کو دہشت گردوں نے جسم سے الگ کردیا ،12 ستمبر2016 کو درگاہ شاہ نورانی بلو چستان خضدار میں 60سے زائد افراد خودکش حملوں کا نشانہ بنے ان کے اعضاء جسم سے جداہو گئے کسی کے ہا تھ غائب تھے توکسی کے پاؤں، کسی کا سر جسم سے جد اتھا توکو ئی تن کے بغیر ،ٹریفک حادثات میں ہلا ک ہونے والوں کے اعضاء بھی جسم سے جدا ہوجاتے ہیں ،

8 اکتوبر 2005 کو ناگہانی اور قدرتی آفت سونانی طوفان نے لاتعداد لوگوں کو موت کی آغوش میں سلا دیا جس میں بوڑھے ،بچے اور جوان سب ہی شامل تھے ،ملبے تلے دبنے کی وجہ سے کرین نے کئی لوگوں کو کاٹ کر باہر نکالا. یہاں تک کہ خواتین کی لاشوں سے سونا اتار نے کے لئے لٹیروں نے ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے ،جب سے دنیا بنی ہے تب سے لے کر آج تک ناگہانی آفتوں ،قدرتی آفتوں ،خودکش حملوں و دھماکوں میں کتنے لوگ اپنے اعضاء سے محروم ہوگئے اور کتنے ہی اپنے اعضاء سے محروم ہوکر زندگی کے دن گزاررہے ہیں تو کیا یہ سب کے سب گستاخ تھے ،گناہ گار تھے؟ کیاسانحہ نشتر پارک 2004میں شہید ہونے والے بھی گناہ گار تھے ؟کسی کے پاس جوا ب ہے جو میرے ان سوالوں کا جواب دے یا پھرجنید جمشید پر انگلی اٹھانے والوں کو ان کے جواب مل گئے ہوں گے ان کے تجزئے ،رائے اور فتوے میں شاید تبدیلی آجائے ان کی سوچ اب بدل جائے ۔

خدارا اے لوگوں !یہ اللہ اور جنیدجمشید کا مسئلہ تھا ہمیں اللہ سے معافی مانگنا چاہے کیوں کہ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم کسی کوغلط کہیں ،برابھلا کہیں ۔اگر ہم میں ا س قدر صحابہ کرام ،اہل بیت اور رسول کریم ﷺکی عزت وتکریم ہے ؟اگر ہم اس قدر دین کو سمجھتے ہیں تو کیوں تفرقات میں بٹ چکے ہیں ؟کیوں الگ الگ ہو چکے ہیں ؟کیوں مغرب و یورپ ہمیں ذلیل و رسوا کر رہے ہیں؟ ان کی نظر میں ہماری عزت کیوں نہیں ؟دنیا کے 206 ممالک میں 56مسلم ہیں جن کی آبادی 1ارب 30کروڑ ہے۔ اس کے باوجود ہمار ا پہلا قبلہ محفوظ نہیں ہم اسرائیل کے خلاف متحد کیوں نہیں ہوتے ؟ڈنمارک نے رسول کریم ﷺ کے خاکے بنائے ہم نے کیا کیا؟صرف نعرے بازی، جلسے،جلوس،ریلیاں ،تقاریر سب کر ڈالا دو نعرے مارے اورگھروں کو لوٹ آئےْ ؟اصل کام جوکرنا تھا وہ ڈنمارک کی چیزوں کا بائیکاٹ اور ان کے خلا ف اعلان جنگ کرتے ان کے ملک میں گھس کر ان کو مارکرآتے جسے عبدارحمن چیمہ جرمنی کی حکو مت کی جانب سے وظیفے پر گئے اور جرمن اخبار کے ڈائی ویلٹ راجر کو اس کے دفتر میں گھس کر مار نے کی کوشش کی ،کیوں کہ اس بدبخت نے ڈنمارک میں شائع ہونے والے رسول کریم ﷺکے گستاخانہ خاکوں کی شبیہ شائع کردی تھی مگر عبد الرحمن چیمہ کو پکڑ لیاگیا اور پر اسرار موت ان کا مقدر بنی ۔

ہم کس طرح کے مسلمان ہوچکے ہیں ،کس قدر بے حس ہو چکے ہیں ،اس قدر دین سے دور ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی ملک نبی کریم ﷺ کی جان بوجھ کر گستاخی کرتا ہے اس کی چیزوں کو ہم شوق سے استعمال کرتے ہیں۔ شام و برما کے مسلمانوں کے لئے امت رسول مارچﷺ ریلی 1 جنوری کو نکالی گئی جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔شام،برما ،حلب ،کشمیر،فلسطین میں روزانہ مسلمان شہید ہورہے ہیں ہم نے کیا کیا؟کبھی چائے والے کے پیچھے بھاگتے رہے اس پر تبصرہ کرتے رہے ،اس کی قسمت پر رشک کرتے دکھائی دئیے تو کبھی ملالہ کے۔

7 دسمبر کو پی آ ئی اے کے طیارے میں صرف جنید جمشید ہی سوار نہ تھے جو میڈیا نے صرف ان کی کوریج کی ان کو ہی فوکس کیا بلکہ وہ 46 افراد بھی سوار تھے جن کی جنید جمشید کی طرح ایک فیملی تھی ،خاندان تھا،ان کے جسم میں بھی روح تھی ،وہ بھی جذبات ،احساسات رکھتے تھے ،وہ کوئی گاجر مولی نہ تھے،تو میڈیا کی جانب سے ان کے ساتھ اجنبیوں والا غیروں والا سلو ک کرنا بہت ہی افسوس ناک تھا ان سب کے جسموں میں بھی ایک دل دھڑکتا تھا۔ باتوں باتوں میں بات نکلی تو میرے ایک ساتھی نے کہا کہ اگر وہ 46 افراد غیر مسلم ہوتے ،انڈین ہوتے تو ان کا میڈیا نہ بتا تا تو دکھ نہ ہوتا مگر میرا میرے ساتھی سے اختلاف ہو ا اور میں نے کہا کہ :دنیا ،آخرت اور ہمارے اعمال تینوں کی بنیاد ا نسانیت ہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے