آزادی کابیس کیمپ یااقتدار کاریس کیمپ

کہتے ہیں جب کسی قوم پر غلامی کا ایک طویل حصہ گزر جائے تو وہ غلامی سے اس حد تک مانوس ہو جاتی ہے کہ وہ غلامی کے عروج کو آزادی سمجھنے لگتی ہے . کشمیری قوم کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے اکثریت تو چار ہزار مربع میل میں بیٹھ کر یہ سننا ہی نہیں چاہتی کہ ہم غلام ہیں اقتدار کی ہوس اور مادی لذتوں نے قومی تشخص کو اس حد تک پامال کیا ہے کہ اسکی بحالی کے دور تک کوئی اثرات نظر نہیں آتے۔

یوں تو کشمیر کی غلامی کی سیا ہ رات بہت طویل ہے کشمیر کی تاریخی غلامی جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 1947میں ہوامگر حقیقت میں کشمیر کی غلامی کا آغاز تو اس وقت ہوگیا تھا جب مغل حکمران اکبر نے کشمیر پر حملہ کرکے مسلمانوں کی مقامی حکومت کو ختم کر کے اپنا تسلط جمایاپھر یکے بعد دیگرے پٹھان ،سکھ اور ڈوگرے کشمیر کے حسن کو گہن لگاتے رہے اور لوٹ مار کا سلسلہ جا ری رکھا

1947میں جب سارے برصغیر (پاک و ہند) کو آزادی کا گہنا پہنایا گیا ، ٹھیک اسی دن کشمیریوں کو جدید زمانے میں غلامی کا جدید لباس زیب تن کروا کے غلامی کا نیا طوق پہنایا گیا اور اب اس نئے طوق کو پہنئے ہوئے 70سال ہونے کو ہیں. 1947میں ہی 4144 مربع میل رقبہ پر محیط کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروا کر اسے آزاد کشمیر کا نا م دیا گیا، پھر 24اکتوبر1947کو ایک اعلامیہ کے ذریعے آزاد کشمیر میں ایک آزاد انقلابی حکومت قائم کر دی گئی اوراس کی حفاظت کے لیے پاک آرمی کو تعینات کیا گیا ، اسی خطے کو آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے ، آزاد انقلابی حکومت قائم کرنے کا بنیادی مقصد کشمیر کے باقی حصے کو بھارتی تسلط سے آزاد کروانا تھا، اس کی آزادی کے لیئے عملی کا م کرنا تھا اور یہی آزاد انقلابی حکومت کی اولین ترجیح بنائی گئی .

ابتدا میں بڑے جوش و خروش سے انقلابی طرز عمل کو اپناتے ہوئے آزاد حکومت کا نظم و نسق چلانے کی کوشش کی گئی ، تحریک آزادی کشمیر کیلئے پرجوش بیانات اور خون گرما دینے والے خطاب کیے گئے مگر شاید ان میں سر سید احمد خان اور مولانا ظفر علی خان جیسا ولولہ شامل نہ تھا اس لیے وہ شعلہ جوالہ کا کام نہ کر سکے۔

پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام علاقوں کے مابین1949 کے جنگ بندی معاہدے کے تحت حدبندی کر دی گئی . اس کے آزادی کے بیس کیمپ میں باقاعدہ اقتدار کے ریس کیمپ کی بنیادیں پڑنا شروع ہوئی ، آزاد کشمیر کے اندر الیکشن اور وزارتوں کی جنگ شروع ہوئی، آزادی کے بیس کیمپ کی بنیادیں اس وقت ہلنا شروع ہوئیں جب آزاد حکومت کے سارے اختیارات حکومت پاکستان نے اپنے ہاتھ میں رکھ کر آزاد کشمیر کو سیاسی غلامی سے نوازا .آزاد کشمیر کی سیاسی لیڈر شپ تحریک آزادی کشمیر کے لیے تگ و دو کرنے والی آزاد حکومت یہ سوچ کر کہ پاک آرمی آزاد کشمیر کے دفاع کے لیئے اپنی جان ہتھیلی پر لئے ہر وقت بارڈر پر موجود رہتی ہے اور کشمیر کی مکمل آزادی بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے،

آزادکشمیت کی حکومت پاکستان کی حکومت کے نافذ کیئے گئے مختلف ایکٹس ،, 1970,1968,1964,1960۔کے ذریعے حکومتی نظم و نسق چلاتی رہی صرف اپنے اقتدار کی ہوس میں کشمیری قوم کے جذبات کے ساتھ کھیلتی رہی قربانیاں ہوتی رہی مگر قربانیاں یا تو مظلوم کشمیری وعوام یا پاک آرمی کا مقدر بنتی رہی اور آخری عبوری ایکٹ1974کے آزاد کشمیر میں نفاذ کے آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نے سرعام اقتدار کی لے پر رقص کرنا شروع کیا، شہداء کے خون کو بھول کر جن کی ہڈیاں کشمیر کی مٹی میں مل گئی ہیں آزاد کشمیر کو اقتدار کا ریس کیمپ بنانا شروع کیا،

آزاد کشمیر کی معصوم عوام کے ساتھ کبھی تحریک آزادی کشمیر اور کبھی آئینی حقوق کے نام پر دھوکہ کیا گیا ، وراثت در وراثت اقتدار کی منتقلی کا کام شروع ہوا ،کشمیر بنے گا پاکستان،اور کشمیر پاکستان کی شہہ رگ کا نعرہ لگا کر سیاسی کھیل کھیلا گیاجو اب تک جاری ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے مگر اس کے آئینی حقوق کہاں ہیں ؟

کیبنیٹ ڈویژن کے نوٹیفیکیشن محررہ 11 مئی1971کے تحت آزاد کشمیر کا درجہ صوبے کے برابر ہے مگر جو حقوق پاکستان میں صوبوں کو حاصل ہیں کیا وہ آزاد کشمیر کو حاصل ہیں؟

کیا پاکستان کی پارلیمنٹ میں ،مشترکہ مفاداتی کونسل میں،قومی اقتصادی کونسل اور دیگر مالیاتی کمیشن میں آزاد کشمیر کی کوئی نمائندگی ہے؟

کیا انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) میں آزاد کشمیر کی کوئی نمائندگی ہے؟

کیا آزاد کشمیر میں واقع ہائیڈرل پاور سٹیشنز سے حاصل ہونے والے منافع سے کبھی کوئی حصہ آزاد کشمیر کو ملا؟

کیا آئین پاکستان میں ہونے والی 18ویں ترمیم کا فائدہ آزاد کشمیر کو بھی ہوا؟

NECاورNFCمیں کس حد تک حصہ آزاد کشمیر کو دیا گیا ہے؟

کیا آزاد کشمیر میں چیف سیکٹری،ایڈیشنل چیف سیکٹری،فنانس سیکٹری، آڈیٹر جنرل آف اے -جے-کے،اکاؤنٹنٹ جنرل آف اے-جے-کے، انسپکٹر جنرل آف پولیس،سیکٹری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ جیسے اہم عہدوں پر کبھی کسی کشمیری کی تعیناتی ہوئی؟

اتنے بڑے اور اہم عہدوں پر تعینات افسران میں سے کتنوں نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا ہوتا ہے؟

آزاد کشمیر کونسل ج سکے پاس کہا جاتا ہے اختیارات کی فراوانی ہوتی ہے، 1974کے ایکٹ کی سیکشن21کی بنیاد پر اس کی سربراہی وزیراعظم پاکستان کے پاس ہوتی ہے تو سوال یہ ہے کہ سیاسی دوروں کے علاوہ وزیراعظم پاکستان کتنی بار آزاد کشمیر کا دورہ آزادکشمیر کے مسائل دیکھنے کے لیئے کرتے ہیں؟

کیا ان سوالوں کا جواب آزاد کشمیر کی سیاسی لیڈرشپ کے پاس ہے؟

جس آزاد کشمیر پر ہمارے سیاست دان اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں وہاں کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کی توفیق کبھی انہیں ہوئی ، تحریک آزادی کشمیر میں شمولیت کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر آزاد کشمیر آنے والے مہاجرین کے مسائل تک ہماری سیاسی قیادت حل نہیں کرسکی اور ستم ظریفی کشمیری قوم کی کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا اختیار ہماری سیاست قیادت کے پاس ہے ہی نہیں اور آزادی کشمیر کے نام پر سیاست جاری ہے .

اقتدار کی ہوس اور عیش پرستی نے انہیں اس حد تک اندھا کر دیا ہے کہ یہ تو یہ بھی بھول گئے ہیں کہ کیسے کشمیری معصوم بچیوں اور باعزت ماؤں بہنوں کی عصمت دری کی گئی تھی اور کی جا رہی ہے ، کیسے ملعون ہندوستانی سامراج نے انہیں کلکتہ اور بمبئی کے بازاروں میں نیلام کیا۔ یہ بھول گئے ہیں کہ لاکھوں شہداء نے اپنی جانوں کے نذرانے کس مقصد کے لیئے پیش کیے ، پاک آرمی گذشتہ سات دہائیوں سے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کس مقصد کے لیئے بارڈر پر بیٹھی ہے ۔

انہیں یاد ہے تو صرف مخمل کے بستر ،اقتدار کی کرسی ،اور اپنی جھوٹی شان و شوکت ، عوام کے حقوق سے انہیں کوئی سروکار نہیں . اپنی دوکان چلنی چاہیے بس ۔ایک کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ مل گیا ہے ، اسے استعمال کیے جاؤ اور معصوم کشمیری عوام کے حقوق کا استحصال جاری رکھو کیونکہ حفاظت اور قربانی کے لیے معصوم عوام اور پاک آرمی جو موجود ہے ، پوچھنے والا تو کوئی ہے نہیں اور اگر کوئی محمود مسافر پرامن طریقے سے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے یا احتجاج کرے تو اس کو پابند سلاسل کرنے کی تیاری کر لو ۔

یہ سیاسی جرات ہے ہمارے سیاستدانوں کی کہ ایک اکیلے انسان کے احتجاج سے ان کے اقتدار کے ایوانوں کی دیواریں لرز اٹھتی ہیں ۔بدقسمتی سے آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کی عیش پرستی ،ہوسِ اقتدار اور پاکستانی سیاسی قیادت کی کشمیر سے متعلق ناقص پالیسیوں (جس کی مثال موجودہ دور میں کشمیر کمیٹی کے بے باک چئیرمین مولانا فضل الرحمن کی صورت میں موجود ہے )کی وجہ سے آنے والی صدیوں تک مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے