گولی نئیں مریندی بولی مریندی اے

الفاظ پرندوں کی مانند ہوتے ہے ۔جو لبوں کی شاخوں پہ اپنا گھر بناتے ہیں ۔جیسے ہی لب ہلتے ہیں یہ اُڑ جاتے ہیں ۔ایک ایسی اُڑان پکڑتے ہیں کہ ان کا واپس آنا نا ممکن ہو جا تا ہے۔ بند زبان کی قید سے نکل کر یا تو دوسروں کے دلوں میں اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں ۔واپس نہ آنے والے یہ پرندے کسی کے لیے با عث سکون بنتے ہے تو کسی کہ لیے موجب ذلت و اذیت ہوتے ہیں ۔بعد میں اُڑانے والاان پہ کتنا ہی پچھتاوا کرے یہ واپس مُڑ کر نہیں آتے ۔

ان بظاہر بے جان سے پرندوں میں بہت قوت ہوتی ہیں ۔ یہ اپنی بے پناہ قوت کے باعث دوسروں کے دلوں میں خوابوں کے محل تعمیر کر لیتے ہیں مگر کچھ ایسے پرندے بھی ہوتے ہیں جو ایک لمحے میں اپنی خنجر جیسی نوک سے محلات کی ایک ایک اینٹ کو اُدھیڑ دیتے ہیں ۔

ان کے ریزہ ریزہ ہونے سے دونوں کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اصل زندگی جس کو زندگی کہتے ہیں،اس کا آغاز ہی یہیں سے ہوتا ہے۔اس کے بعد وہ شخص جو اپنی بصیرت اور سماعت سے دھوکہ کھا چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے جسم کی پانچ حسیں کیا چھٹی حس سے بھی دنیا کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ صرف ادا کیے گئے کلما ت پہ تفکر نہیں کرتا بلکہ ان کی گہرائی کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

قران مجید میں اﷲ پاک نے جا بجا غورو فکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ زمانہ قد یم میں جن لوگوں نے اپنی زند گی غور و فکر میں صرف کر دی ان کا نام آج بھی زندہ و تا بندہ ہے ، اور آنے والے وقت میں بھی ان کی ا نفرادی صلاحیتوں کے باعث تاریخ اُ نہیں یاد رکھے گی ۔

یہ پرندے جہاں لو گوں پر اپنے مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں وہیں ان کے کچھ منفی اثرات بھی ہوتے ہیں ۔ یا تو وہ شخص جو دوسروں کے بو لے گئے الفاظ کی وجہ سے جانے انجانے میں اپنے اندر تعمیر کئے گئے خوبصورت محل سے اس کی زندگی سنور جاتی ہے لیکن جب یہی خواب ٹوٹتے ہیں ، تو ان کی کرچیوں سے دل تا ر تار ہو جاتا ہے جو تاحیات نہ بھرنے والے زخموں کا با عث بنتے ہیں ۔

ان پرندوں کی آواز ہمیشہ کوئل کی گونج کی طرح سریلی نہیں ہوتی ۔ بعض اوقات ان میں کوے جیسا کرخت لہجہ بھی آجاتا ہے جو صرف کان میں نہیں بلکہ سیدھا سننے والے کہ دل پر جا لگتا ہے۔ ان پرندوں کو معمولی مت سمجھیں جو ایک ذرا سی جنبش سے اُڑ جاتے ہیں۔ پھر لاکھ بلاووں تنہائی کے پنجرے میں ، ان کو واپس لانے کے لیے دانہ دانہ آنکھیں چُن دو ۔ پتا پتا شاخیں بُن دو ۔ ان کا واپس آنا مشکل ہو تا ہے کیونکہ آخر ان کا بھی تو دل ہوتا ہے ۔

جانے انجانے میں ادا کیے گئے یہ الفاظ کون سا رُخ اختیار کر یں گے ۔ اس کا علم تو ان الفاظ کو ادا کرنے والے کے پاس بھی نہیں ہوتالیکن ان پرندوں کو آزاد کرنے سے پہلے ان کے پر گننے کا اختیار تو رب جلیل نے انسان کو دیا ہے ۔

مختصر یہ کہ ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” مگر وہی الفاظ ادا کر جو درست ہوں اور ان کے تقاضوں کو تو پورا کر سکے۔ نہیں تو ایویں کسی کی زندگی تباہ کر نے کا سامان تیار نہ کر ۔

تھامسن ایڈیسن مشہورِ عالم سائنسدان جب بچہ تھا ۔وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا ، کہ استادنے دیا ہے کہ اپنی والدہ کو دے دینا ۔ماں نے کھول کر پڑھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ پھر اس نے با آوازبلندپڑھا۔

(تمہارا بیٹا ایک جینئس ہے ، یہ سکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے اور اتنے اچھے استاد نہیں جو اس کو پڑھا سکیں ، سو آپ اس کو خود ہی پڑھا لیں )

سالوں بعد جب تھامسن ایڈیسن ایک سائنسدان کے طور پہ مشہور عالم بن گیا تو ا س وقت تک اس کی والدہ وفات پا چکی تھی ۔ وہ اپنے والدین کے کاغذات میں سے کچھ ڈھو نڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا ۔ لیکن اس پر لکھا تھا ( آپ کا بیٹا انتہائی غبی و ذہنی ناکارہ ہے ۔ ہم اسے سکول میں مزید نہیں رکھ سکتے ) ۔

اسی دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا ۔( تھامس ایڈیسن ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا ، پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا دیا)۔ ماں نے انہی الفاظ کو اپنے انداز سے بولا لیکن ان جملوں نے بیٹے کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔

لب کشائی ضرور کیجیے مگر لب کھولنے سے پہلے الفاظ اور جس کے لیے بولے جا رہے ہیں ،اس کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کا موازنہ ضرور کریں ۔کہیں یہ دوسروں کے لیے تیر اور خنجر کی شکل تو نہیں اختیار کر لیں گے ۔ پنجابی زبان کا مشہور محاورہ ہے( گولی نئیں مریندی بولی مریندی اے) کیونکہ الفاظ کے دیے گئے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہوتا۔

جو لوگ پہلے تولو پھر بولو کے اصول کو اپنا لیتے ہیں ، وہ کسی رنج وغم اور شرمندگی کا سامنا نہیں کرتے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے