میاں صاحب اوراُن کے بیربل

کہا جا تا ہے کہ مرحوم جزل ضیاءالحق کسی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام غلام قادر آف لسبیلہ سے خفا ہو گئے ۔اور وہ کسی بہانے جام صا حب کو اس منصب سے ہٹا نا چاہتے تھے ،کسی موقع پر ملاقات ہوئی تو مرحوم جنرل نے غلام قادر سے کہا کہ جا م صاحب!آپ کے خلاف بہت سی شکایات مل رہی ہیں ،یا تو ان کا ازالہ کیجیئے یا پھر ہمیں کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا ۔

اس لب و لہجے سے جا م غلام قادر کو اندازہ ہو گیا کہ جنرل صاحب کے کیا ارادے ہیں ؟انہوں نے بڑی متانت لیکن گہری فطانت سے جواب دیا ۔سر !بے عیب ذات ایک اللہ کی ہے اور ایک آپ کی ،باقی رہے ہم جیسے لوگ تو بندہ بشر ہیں کو ئی نہ کوئی غلطی تو ہو جاتی ہے،فرمایئے میں کس طرح ازالہ کروں تاکہ دوبارہ کوئی شکایت کا موقع پیدا نہ ہو۔

کچھ ایسا ہی عقیدہ مسلم لیگ (ن) کے افراد کا میاں نواز شریف کے بارے میں ہے ن لیگ کا ” جی جی برگیڈ“ روزانہ کی بنیادوں پر سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے بعد میاں نواز شریف کو تہجد گزار اور بے عیب ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زار لگا رہے ہیں ۔”جی جی برگیڈ“ کے نزدیک شریف فیملی کا دامن کرپشن سے آلودہ نہیں بلکہ آب زم زم سے دھلا ہوا ہے ۔

پانامہ کیس کا فیصلہ شریف خاندان کے خلاف یا حق میں لیکن ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ ان کی سیا سی اور اخلاقی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے کردار ہی وہ چیز ہوتی ہے جو دشمنوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے پانامہ کیس سامنے آنے سے قبل شریف خاندان کو پتہ چل گیا تھاکہ پنڈورا باکس کھلنے والا ہے تو انہوں نے چالاکی یہ کی کہ حسین نواز کے مضحکہ خیز انٹرویو کروائے ۔حسین نواز نے اپنے ان انٹرویوز میں الحمدللہ کہہ کر آف شور کمپنیوں کا اعتراف کیا تھا ۔

پانامہ کیس سامنے آیا تو میاں نواز شریف نے قوم سے اوپر تلے تین خطاب کر ڈالے اللہ کے نناوے ناموں کے نیچے کھڑے ہو کر کیا گیا خطاب جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ورثے میں ترقی کرتا ہوا کاروبار ملا ہم تو سیاست عبادت سمجھ کر کرتے ہیں سیاست میں ہم نے بنایا کچھ نہیں گنوایا بہت کچھ ہے انکی سیاست پاکستا ن میں رہی اورعبادت نے اپنا سفر جاری رکھا جو دبئی کے ساحلوں سے ہوتی ہوئی سعودی عرب،قطر،لندن،اسٹریلیا اور پانامہ تک جا پہنچی ان کی عبادت سیاہ ہے اور اسے دنیا بھر کا سفر کرنے کا بہت شوق ہے ۔

میاں نواز شریف اور انکے حواریوں نے اسمبلی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر پانامہ کیس سپریم کورٹ میں چلا تو ہم استثنیٰ نہیں مانگیں گئے اور تمام ثبوت عدالت میں پیش کریں گئے کیس چلنے کے بعد ثبوت تو نہیں پیش کیئے گئے لیکن استثنیٰ ضرور مانگا گیا۔

میاں نواز شریف کے ”بیربل“ انہیں قائد اعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو سے ملا رہے ہیں ان بیربلوں کو یہ نہیں معلوم کہ پانامہ شریف معاف کرنا میاں نواز شریف کا تقابلی جائزہ ایسے لیڈر سے کر رہے ہیں جس کے اجلے کردار کی گواہی ان کے سیاسی حریف بھی ڈنکے کی چوٹ پر دیتے ہیں ۔

دیوان سنگھ مفتون اپنی کتاب” ناقابل فراموش واقعات“ میں لکھتے ہیں کہ گا ندھی کو پتہ تھا کہ مسٹر محمد علی جناح کی لیگی پالیسی ملک اور کا نگریس کے لیئے انتہائی نقصان کا باعث ہے مگر گاندھی کے دل میں مسٹر جناح کے لیئے انتہائی عزت تھی اور وہ اپنی نجی محافل میں بھی مسٹر جناح کا ذکر انتہائی محبت اور عزت کے ساتھ کرتے

اس کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی سمجھتے تھے کہ مسٹر جناح کے اندر کریکٹر ہے ۔انگریز حکومت کسی بھی قیمت پر انہیں خرید نہیں سکتی اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے انہیں کبھی بھی اپنا نہ سمجھا اور وہ ہمیشہ ان سے بدکتی رہی ادھر چوک چوراہوں اور تھڑوں پر قائداعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کے حوالے سے عوام جو کلمات خیر کہتی ہے انہیں سن کر الامان والحفیظ کہنا پڑتا ہے۔

ایک اور ملا دو پیازہ میاں نواز شریف کا ذوالفقار بھٹو سے تقابل کر رہا ہے ، بھٹو ایک ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ گیا اور پھانسی کے پھندے پر جھول کر امر ہو گیا جبکہ میاں نواز شریف نے بجائے ڈکٹیٹر کے سامنے سینہ سپر ہونے کے دُم لپیٹ کر جدہ بھاگنے میں عافیت جانی ۔

بھٹو انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا جبکہ میاں صاحب کی نظریں پرچی پر ہوتی ہیں ۔

بھٹو کو عالم اسلام اپنا متفقہ لیڈر مان چکا تھا جبکہ میاں صاحب قطری شہزادوں کے محتاج ہیں ۔

بھٹو بلا کا ذہین فطین اور دانشورتھا جبکہ میاں صاحب ھریسہ خور ہیں ۔

بھٹو نے عربوں کو مغرب کے خلاف تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تجویز دی جبکہ میاں صاحب عربوں سے پانامہ کیس سے بچنے کی تجاویز مانگ رہے ہیں

خواجہ آصف کی منہ زبانی ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاءہوتی ہے”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے