"اسلامی ” بینکاری پر اہم کتب

ہمارے نزدیک "اسلامی ” بینکاری بالکل ہی غلط بنیادوں پر قائم کی گئی ہے اور اسی لیے جزوی تبدیلیوں سے اس کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ اس موضوع پر کئی تفصیلی پوسٹس پہلے ہی کرچکا ہوں ۔ کئی احباب کا مطالبہ ہے کہ اس موضوع پر اہم کتب کا تعارف کروایا جائے ۔ میں یہاں استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی ان تحریرات کا ذکر کروں گا جو "اسلامی” بینکاری کے متعلق ہمارے موقف کے فہم کے لیے اہم ہیں ۔
سب سے پہلے تو مسئلہ "اصولی” ہے ۔

"اسلامی” بینکاری اور ربا کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کے استنباط کے لیے معاصر اہلِ علم نے جو طریقِ کار اختیار کیا وہ اصولِ فقہ کی رو سے محلِ نظر ہے ، بلکہ اصولِ فقہ کے متعلق کئی بنیادی غلط فہمیوں پر مبنی ہے ۔ ان غلطیوں کی توضیح کے لیے ، اور فقہائے کرام کے منہج کے صحیح فہم کے لیے ، سب سے اہم کتاب Theories of Islamic Law: The Methodology of Ijtihad ہے ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے 1994ء میں شائع کی ۔ یہ کتاب اصولِ فقہ اور فلسفۂ قانون کے بہت ہی اہم مباحث پر مبنی ہے ، بالخصوص وہ ابواب جہاں استاد محترم نے "اہل راے” کے منہج کی توضیح کی ہے اور پھر جہاں "مقاصدِ شریعت” کے نظریے کی تشکیل پر تفصیلی بحث کے علاوہ اس کے اطلاق کی صحیح تفہیم کی ہے ۔

یہ ابواب ہضم ہوجائیں تو نہ صرف "اسلامی ” بینکاری کے قائلین ، بلکہ بالعموم معاصراہلِ علم کے مناہج میں موجود مسائل کا فہم آسان ہوجاتا ہے ۔

اصولی مسائل کی توضیح کے لیے ایک اور اہم کتاب Islamic Jurisprudence کے وہ ابواب پڑھنے بھی ضروری ہیں جہاں نیازی صاحب نے "فقیہ کے لیے اسلامی قانون کے مآخذ” پر بحث کی ہے۔ یہ بحث قرآن ، سنت، اجماع اور قیاس پر کی جانے والی عمومی بحث سے مختلف ہے اور دراصل فقہائے کرام کے اس منہج کی توضیح کے لیے پیش کی گئی ہے جس کے بنیادی خدوخال Theories of Islamic Law میں پیش کیے گئے تھے ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے 2000ء میں شائع کی ۔ اس بحث کی مزید تفصیلی توضیح نیازی صاحب نے ایک اور کتاب Following A Madhhab and Rules for Issuing Fatwas میں کی ہے جو پہلی دفعہ فیڈرل لا ہاؤس ، اسلام آباد ، نے 2013ء میں شائع کی اور اصولِ فقہ پر نیازی صاحب کی کتب کے سلسلے Secrets of Usul al-Fiqh کا حصہ ہے ۔ اس کتاب میں تلفیق ، یعنی "فقہی اچار "بنانے کے منہج ، پر بھی تفصیلی تنقید ملے گی ۔

اصولی مباحث کے بعد "اسلامی "بینکاری کے متعلق بعض اہم فقہی و قانونی مسائل کی تفہیم کے لیے جو ترتیب عام طور پر میں اختیار کرتا ہوں وہ یہ ہے :

عقد ، مال ، ملکیت ، قبضہ اور بیع کے تصورات کی توضیح کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Outlines of Islamic Jurisprudence سے متعلقہ ابواب ؛ یہ کتاب پہلی دفعہ ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد ، نے 1998ء میں شائع کی ۔

اسلامی قانون میں منافع ، یعنی "ربح” ، کے تصور کی وضاحت کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Partnerships in Islam کا باب "Basis for Entitlement to Profit”؛ اس باب سے ربا کے متعلق اسلامی قانون کے سب سے اہم اصول "الخراج بالضمان” کا واضح تصور سامنے آجاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سارے پیچیدہ مسائل کا آسان حل مل جاتا ہے ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے Islamic Law of Business Organization: Partnerships کے عنوان سے 1998ء میں شائع کی ۔

ان بنیادی تصورات اور مباحث کی وضاحت کے بعد سب سے اہم تصور "ربا” پر بحث کی باری آتی ہے ۔ اس کے لیے نیازی صاحب کی معرکہ آرا کتاب The Concept of Riba and Islamic Banking پوری کی پوری (کئی دفعہ) پڑھنی ہوگی ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ نیازی پبلشنگ ہاؤس نے 1997ء میں شائع کی ۔ کچھ عرصہ قبل فیڈرل لا ہاؤس، اسلام آباد، نے اس کا نیا – اور نسبتاً تسہیل شدہ ، ایڈیشن The Prohibition of Riba Elaborated کے عنوان سے شائع کیا ہے ۔

(یہاں تک پہنچنے کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ آدمی فقہائے کرام کی کتب کا براہِ راست مطالعہ بھی کرےاور اس ضمن میں اپنے طلبہ کو میں بالعموم امام سرخسی کی المبسوط سے کتاب البیوع اور کتاب الصرف کے بعض منتخب ابواب ؛ اور امام کاسانی کی بدائع الصنائع سے کتاب البیوع کے بعض منتخب ابواب اور کتاب القرض پوری پڑھنے کے لیے کہتا ہوں ۔ )

اس کے بعد مشارکت اور مضاربت کے متعلق اسلامی قانون کے اصولوں کی صحیح تفہیم کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Partnerships کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ بہت مفید ہے کیونکہ "اسلامی” بینکار عموماً ان تصورات کا نام استعمال کرتے ہیں لیکن ان اصولوں کی پابندی نہیں کرتے ۔

اس کے بعد خاصے کی چیز نیازی صاحب کی مختصر کتاب Murabahah and the Credit Sale ہے جس میں انھوں نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے مرابحہ کے اصول کیا ہیں اور "اسلامی” بینکاری میں رائج مرابحہ کس طرح ان اصولوں کو پامال کرتا ہے ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ نے 2009ء میں شائع کی ۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ "اعتباری شخصیت” اور "محدود ذمہ داری” کے تصورات کی بھی صحیح توضیح کی جائے کیونکہ ہر بینک، خواہ وہ "اسلامی” ہو ، قانون کی نظر میں ایک "کمپنی” یا "کارپوریشن” ہے جسے قانون اعتباری شخصیت عطا کرتا ہے اور اس کے شیئرہولڈرز کی ذمہ داری محدود ہوتی ہے ۔ ان دونوں تصورات – اعتباری شخصیت اور محدود ذمہ داری – کے متعلق "اسلامی” بینکاری کے قائلین کئی بنیادی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں ۔ یہ غلط فہمیاں کیسے دور کی جاسکتی ہیں اور کیا اعتباری شخصیت اور محدود ذمہ داری کے تصورات میں ایسی تبدیلیاں ممکن ہیں جن کے بعد وہ اسلامی قانون سے متصادم نہ رہیں؟ ان سوالات کے جواب کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Islamic Law of Business Organization: Corporationsکا مطالعہ بہت ضروری ہے جسے پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے 1998ء میں شائع کیا ۔ آج کل فیڈرل لا ہاؤس ، اسلام آباد، اسے Corporations in Islam کے عنوان سے شائع کررہا ہے۔

ماضیِ قریب میں ان سارے مباحث کا خلاصہ نیازی صاحب نے چار مختصر تحریرات میں پیش کیا ہے :
Islamic Banking is Haram
An Open Letter to Islamic Bankers and Economists
Riba and Dar al-Islam
اور
The Islamic Banking Industry and Its Dubious Claims
یہ چاروں تحریرات سوشل سائنسز ریسرچ نیٹ ورک کی ویب سائٹ (www.ssrn.com) پر نیازی صاحب کے صفحے پر دستیاب ہیں۔ دیگر کتب بھی ، جو اوپر ذکر کی گئیں ، اس صفحے پر یا نیازی صاحب کی اپنی ویب سائٹ (www.nyazee.org) پر دستیاب ہیں جہاں سے وہ مفت ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے