پی ٹی آئی سے خوفزذہ جےیو آئی اورمولانا کاکاخیل!

جمعیت علماء اسلام کی ہیئیت مقتدرہ تحریک انصاف سے غیر ضروری طور پر خوفزدہ نظر آتی ہے

انتہائی دھیمے سروں مخالفین پر جملے کسنے والے مولانا فضل الرحمان کا عمران خان اور ان جماعت پر ایک سے زائد مرتبہ انتہائی سخت بلکہ تلخ انداز میں برسنا کسی شدید دباؤ یا کسی غیر مرئی خوف کا شاخسانہ ہو سکتا ہے ۔چناچہ مولانا کی مخالفین کے احترام تقدس اور وقار کو ملحوظ رکھنے کی وہ صفت جو انہیں معاصرین میں ممتاز بناتی ہے عمران خان کے لئے کہیں نظر نہیں آتی

پی ٹی آئی پر طنز کرتے وقت مولانا بارہا دامن اعتدال جھٹک ڈالتے ہیں اور ایسے تبصروں پر بھی آمادہ نظر آتے ہیں جو ان کی شخصیت سے لگا نہیں رکھتے وہ عمران خان کے لئے کسی قسم کے نرم گوشے کا تصور تک محال سمجھتے ان کی نظر میں تحریک انصاف پاکستان کی سالمیت اس کی اساس اس کے نظریاتی تشخص کے لئے زہر ہلاہل کا درجہ جبکہ عمران خان اس کے لئے کسی خطرناک دشمن سے کم نہیں

اسی لئے مولانا تسلسل کے ساتھ تحریک انصاف کے مورچے پر سنگ باری میں مشغول ہیں

مولانا کی اقتداء میں ان کے کارکن بھی تقریبا اس مہم میں ہر اول دستے کا کردار نبھا رہے ہیں وہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ہر اس فرد یا جماعت کو بھی لتاڑتے نظر آتے ہیں جو عمران خان یا اس کی جماعت کے بارے میں غلطی سے کلمہ خیر ادا کرے

اس وقت جوان سال عالم اور باوقار مفتی سید عدنان کاکاخیل صاحب جے یو آئی کے جیالوں کے رحم کرم پر ہیں ۔جمعیت کا میڈیا سیل ان کی دستار اور کردار کے ساتھ ساتھ گریبان۔تک کو محض اس لئے۔آگیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے مثبت اقدام کی تعریف کر بیٹھے۔طعنے طنز اور تحقیر کا لامتناہی سلسلہ دراز ہے اور انہیں مسلسل رگیدا جا رہا ہے ۔کسی صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ سید تعریف کے سہارے سیٹ کا متمنی ہے حالانکہ اس طرح کی خواہش کم از کم سید سے بعید از قیاس ہے۔

کراچی کے ایک مولانا صاحب جو زمانے بھر کو اخلاق کا درس دیتے نہیں تھکتے وہ بھی لہرا لہرا کر جملے کستے نظر آتے ہیں۔

بندگان خدا! مولانا عدنان کاکاخیل جمعیت کا نہ تو حصہ ہیں نہ کارکن ان کی مستقل حیثیت ہے اور الگ مقام ان کا مشن اہل النصرہ قوت حاکمہ اور ہیئت مقتدرہ تک رسائی حاصل کرکے ملک میں اسلامی احکامات کے لئے راہ تراشنا ہے اور راستہ بنانا ہے

وہ اگر کسی سے ملتے ہیں اس کے درست اقدام کی تحسین کرتے ہیں اس کی حوصلہ کرتے ہیں تو اس میں ناراضی غصہ خفگی اور اعتراض کی بھلا کیا تک بنتی ہے
وہ راہ سیاست کے راہرہ نہیں نہ ہی اس میدان کے سپاہی ہیں وہ کسی اور منزل کے مسافر ہیں سو انہیں اپنا مخالف باور کرا کر تذلیل کرنا باعث حیرت ہی نہیں قابل صد افسوس امر ہے ۔لہذا جمعیت کے اہل حل وعقد کو اپنی جانباز فورس کی تربیت کرتے ہوئے اختلاف رائے کا طریقہ سکھانا چاہیے

اب آتے ہیں صد سالہ جمعیت اور اس کی سیاسی سوتن پندرہ سے بیس سال کے درمیان کی پی ٹی آئی کے مابین جاری کشیدگی محاذ آرائی اور دشمنی کی وجوہ کی طرف ہم ابتدائی سطور میں ذکر کر چکے ہیں کہ مولانا کی نظر میں پی ٹی آئی مشکوک کردار کی حاصل ایسی قوت ہے جس کی باگ یورپ میں ہے اور اسے کسی خاص ایجنڈے کے تحت پاکستان کے سیاسی میدان۔میں اتارا گیا ہے اور یہ جماعت اس ملک کو ظلمت تارکیوں تباہی اور اندھیرے میں دھکیلنے کے لئے بروئے کار ہے اور اس کا قائد یہودی ایجنٹ ہے۔

دوسری سمت تحریک انصاف کی قیادت مولانا کے دعووں کو مسترد کرتی ہے ان کے خیال میں مولانا کے پی کے کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر حواس باختہ ہو چکے ہیں اور وہ مذہب کی بیساکھی کے ذریعے در آتے سیاسی طوفان جسےان کے سونامی سے پکارا جاتا ہے بچنا چاہتے ہیں ۔جے۔یو آئی کے ناقد او سوشل میڈیا کے مشہور تجریہ کار عنایت شمسی کا کہنا ہے کہ عمران۔خان کو یہودی ایجنٹ قرار دینا محض سیاسی بیان نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے ۔مولانا وہی حربہ استعمال کر رہے ہیں جو اپنی سیادت کو خطرے میں دیکھ کر مذہبیوں نے سید احمد شہید کے خلاف اپنایا تھا کہ ان کے ایمان کو موضوع بحث بناؤ .

دیوبند مکتبہ فکر میں مولانا نے اپنی برتری قائم رکھنےکے لئےاکابر کی سرپرستی کا پتہ کھیلا ۔مولانا نےنہایت مہارت کے ساتھ دیوبندی حلقہ میں یہ پھیلا دی کے ان۔تمام اکابر او مشایخ اہل دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے لہذا سب کو غیر مشروط طور پر ان کے دست حق پر ست پر بیعت کرنا ہوگا اور جو ان کی سیادت کو قیادت کو بزرگی اور فراست کو چیلنج کرے۔گا وہ اکابر کا گستاخ ہو گا۔آپ کو شاید علم۔ہو مولانا نے اسی کارڈ کو بہت تیزی سے اپنے بالمقابل آتی سپاہ صحابہ کے خلاف اس خوبصورتی سے۔کھیلا کہ وہ اپنے۔ہی حلقے۔میں اچھوت بن کر رہ گئے ان کو نشان عبرت بنا دینے کے ہزار حربے۔اختیار کیے۔گئے تاانکہ انہوں نے۔طوعا او کرھا ان کی قیادت کے سامنے۔ناک رگڑنے میں عافیت جانی۔

وفاق المدارس کے ساتھ بھی مولانا ایسا ہی سلوک فرما چکے ۔اایک بار تو مولانا اپنے لاؤ لشکر سمیت وفاق پر قبضے کے پیش قدمی فرما چکے۔تھے۔اگر دارالعلوم کراچی مزاحمت نہ کرتا تو معلوم اس کی جنرل سکریٹری شپ ہتھیا چکے تھے۔تب اہل وفاق نے مولانا کو شوری میں لے۔کر اور شیرانی صاحب اور دیگر کے لئے سند کا اجراء کرکے جان چھڑائی تھی

اسی طرح مولانا کا ایک اورہتھیار بھی ہے جسے مخالف کو زچ کرنے کے استعمال کرتے ہیں وہ ہے ایجنسی کا بندہ ۔آپ مولانا کےمخالف ہیں اور آپ دیوبندی ہیں تودو الزامات کا سامنا کرنا آپ کے لئے لازمی ہے۔اول آپ اکابر کے۔گستاخ ہیں نمبر دو آپ ایجنسی کے۔آدمی ہیں اگر آپ دیوبندی نہیں تو دو الزامات مزید۔آپ کا مقدر ہیں کہ آپ قادیانی لابی کا حصہ ہیں یا غیر ملکی ایجنٹ اور المیہ یہ ہے۔ظہ مولانا خود اکابر سے بغاوت کرکے جےئیو آئی کا نیا دھڑا بنا کر گستاخی کا ارتکاب کرکے ہیں

ورنہ پیپلز پارٹی ن لیگ اے این پی قوم پرست پارٹیاں بھی تحریک انصاف جیسی ہی ہیں بلکہ ن لیگ کا تو دوسرا نام ہی اسلام پسندوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں پار کرنا ہے

اسی طرح پیپلزپارٹی سے زیادہ لبرل جماعت پاکستان میں شاید ہی کوئی ہو جس کی قیادت اعلانیہ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتی ہے لیکن اس کے باوجود مولانا ان کے ساتھ نہ قدم بہ قدم چلتے ہیں بلکہ ان کی سیاسی تربیت کا بار بھی لادتے چلے جاتے ہیں اور ن لیگ کے ساتھ ہی ان کا محبت کا رشتہ برابر استوار رہتا ہے جو امریکا کی ہر اچھی بری بات تسلیم کرنا سعادت سمجھتی ہے

مولانا مشرف کے ساتھ بھی برابر نبھاتے رہے جس نے لال مسجد کو خون سے دھویا بلوچستان کو بغاوت کی ہنڈیا پر چڑھایا جس نے حدود آرڈیننس کو پامال کیا جس نے دین داروں کو فروخت کیا جس نے اس دیس کو امریکا کی چراہ گاہ بنایا جس نے روشن۔خیالی کی آڑ میں معاشرے کو بے توقیر کیا جس نے مظلوموں کو اذیت کے کھیت میں جوتا جس نے اس پرامن ملک کو بارود کے۔ڈھیر میں تبدیل کیا جس نے ڈرون حملوں کے لئے لائسنس جاری کیا جس نے پڑوسی ملک کے خلاف ظلم روا رکھنے میں اعانت کی جس نے آئین کو بے لباس کیا جس نے کشمیر کاز کو فروخت کیا جس نے ہند کے سامنے جھکنے کو شعار کیا ۔اس سب کے باوجود۔مولانا کا لب و لہجہ ہمیشہ متوازن۔رہا اور باقیوں کے لئے اب بھی لہجے کی مٹھاس برقرا ہے۔سندھ کی اس حکومت سے مولانا کی جماعت کے اسلام۔کو چنداں خطرہ نہیں جو تبدیلی مذہب پر قدغن لگا چکی جو شراب کو رواج دینے کے درپے ہے اور جس کا لاڈلا لیڈر امتناع قادبانیت آرڈینن کے درپے ہے جو یہودی بھائیوں پر روا رکھے جبر پر اشک بار ہے

ظاہر ہے یہ تلخ حقائق سوال کرتے ہیں کہ اتنا کچھ سہہ چکنے والی صد سالہ جے یو آئی ننھی سی تحریک انصاف سے کیوں اس قدر خوفزدہ ہے
تو اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ کے پی کے میں مولانا کی سلطنت کو عمران خان نے خطرات سے دوچار کیا ہے اس لئےوہ مذہب کو بطور کارڈ استعمال کرکے سلطنت بچانا چاہیتے ہیں اگر ایسا ہے تو یقینا گھاٹے۔کا سودا ہرگز نہیں کہ سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں حیا نہیں ہوا کرتی
ادھر تحریک انصاف کے قائدبھی کم نہیں وہ بھی انتہائی سوقیانہ زبان استعمال کرتے ہیں مگر مولانا کا لہجہ زیادہ ہی تلخ ہوتا ہے اور ان کے رضا کار تو آپے سے ہی باہر ہوتے جاتے ہیں ۔عدنان کاکا خیل کو معاف کرکے فریقین جنگ جاری رکھیں کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے