"ہاں میں شرابی ہوں”

1977 انتخابات کا سال تھا،شہر شہر جلسے ہو رہے تھے،بھٹو بھی عوام کا لہوگرمانے والوں میں شامل تھے۔ ایک جلسے میں جوش خطاب میں وہ کہہ بیٹھے” ہاں میں شراب پیتا ہوں عوام کا خون نہیں پیتا” جبکہ ملا فوبیا میں مبتلا کسی دل جلے کے بقول بھٹو کو کہنا چاہیے تھا کہ ہاں میں شراب پیتا ہوں حلوہ نہیں کھاتا۔

بھٹوشراب کے رسیا تھے جس کا انہوں نے سرعام اعتراف بھی کیا جبکہ ان دنوں ایوان بالا اوراس کی قائمہ کمیٹی برائےداخلہ میں شراب کا دبے لفظوں میں ذکر ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ لاجز میں شراب کی بوتلیں برآمد ہونے پربات کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور سینیٹر حافظ حمد اللہ میں تلخ کلامی ہوگئی۔ سینیٹرحافظ حمد اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں شراب کی بوتلیں ملتی ہیں ، میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پارلیمنٹ لاجز میں شراب کون پیتا ہے ، میں انہیں کیا بتاؤں؟ پھرخودہی کہا کہ دس پندرہ ہزار روپے والی شراب کی بوتل کوئی بھنگی یا چھوٹا ملازم تو پی نہیں سکتا ۔ج

س پر رضا ربانی صاحب سے رہا نہ گیا اور دل کی بات زبان پر لاتے ہوئےکہا کہ لوگ اپنے عیب چھپاتے ہیں،آپ اپنی کمزوریوں کو بے نقاب کررہے ہیں،آپ اس سلسلے میں ڈپٹی چیئرمین سے بات کریں ، بس پھر کیا تھا، جے یو آئی کےرہنما لال پیلے ہوئے اور کہا کہ جناب میں جب بھی شراب پر بات کرنا چاہتا ہوں آپ بولنے نہیں دیتے۔ اگر چوہے مارنے کا ٹھیکہ دیا جا سکتا ہےتو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے شراب کو روکنے کیلئے بھی بات ہونی چاہئے۔

اس سےایک دوروز پہلےسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائےداخلہ کے اجلاس کے دوران زہریلی شراب کے ذکر پر کمیٹی روم کشت زعفران بن گیا تھا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹررحمان ملک نے کہا کہ الیکشن لڑنے والےتمام سیاست دانوں کا ڈی این اے اورمیڈیکل ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ الیکشن لڑنے سے پہلے پتہ ہونا چاہیے کہ امیدوار نے کبھی شراب،چرس یاافیون تو نہیں پی ،جس پر رکن کمیٹی شاہی سید نےکہا کہ اگر ایسا ہوا تو بہت سارے سیاستدان نااہل ہوجائیں گے‘ شراب پینےوالے سیاست دانوں کو سزائے موت ہونی چاہیے‘،شاہی سید نے چرس کو درویشوں کا نشہ بھی قرار دیا جبکہ ایم این اے جمشید دستی نے ایک چینل پر دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹرینزکا اگر ڈی این اے ہوا تو95 فیصد شرابی نکلیں گے۔

پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ہی1977 میں شراب پرپابندی لگی تھی اس کے باوجودخماراورانکارکے اس دو آتشہ کا چلن عام ہے ۔جوشراب نہیں پیتےوہ اس کا اقرار کرتےہیں اورجو پیتے ہیں وہ اس کا اقرارنہیں کرتے لیکن شراب پینے والوں کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ بھٹو واقعی زندہ ہیں۔پاکستان کی 97 فیصدآبادی مسلمان اورمحض3 فیصد غیرمسلمان ہے جن میں عیسائی،ہندواورسکھ نمایاں ہیں۔ان کے مذاہب میں بھی شراب کوناپسندکیاجاتاہےاوراس کی ممانعت ہےاس کے باوجوداقلیتی برادری شوق شراب میں مبتلاہے۔

ابھی پچھلے برس دسمبر میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زہریلی شراب نے50سےزائد افراد کی جان لےلی جس پرہمارے بھولے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے ارشاد فرمایا کہ زہریلی شراب پینے سے پہلے دیکھ لیاجائےکہ کہیں یہ مہلک تو نہیں؟جبکہ مارچ 2016 میں ہولی کے موقع پر ہندو برادری نے ایساہی زہرحلق میں انڈیلاجس پر55 ہندوؤں کو شمشاٹ گھاٹ لےجانا پڑا۔

امریکی اخباروال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 10 فیصدآبادی یعنی 2 کروڑافرادشراب پیتی ہے اور اس کا زیادہ استعمال مختلف تہواروں اورتقریبات میں ہوتا ہے اس حرام مشروب کے حصول کےلئے دیوانےاپنی رات کی نیند تک حرام کردیتے ہیں اور مائع زہر کے حصول کے لئے کبھی ایک ہوٹل تو کبھی دوسرے ہوٹل کےملازمین سے منت سماجت کرتے ہیں،

سندھ میں تو ویسے ہی 128 وائن شاپس ہیں جہاں حکومتی سرپرستی میں اس جام سرورکی سروس ہوتی ہے بلکہ اب تو سنا ہے کہ ہوم ڈیلیوری سروس کی سہولت بھی شروع ہو گئی ہےاس صورتحال میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجادعلی شاہ کے ریمارکس یادآ رہے ہیں جو انہوں نے شراب سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر دئیے تھے کہ حکومت کو جب شراب کی دکانوں سےریونیو مل رہا ہے تو وہ 200 سال میں بھی شراب خانےبند نہیں کرے گی ۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی سب سے قدیم شراب بنانے والی فیکٹری مری بریوری جو 1860 سے شراب کشید کر رہی ہے، اس کے تین کارخانوں مری بریوری، انڈس ڈسٹلری اور کوئٹہ ڈسٹلری میں جِن ، رم ، ووڈکا، وہسکی اور بیئر تیار ہوتی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق کمپنی کی سالانہ آمدنی5 ارب روپے سے زائد ہے۔

افسوس تواس بات کا ہے کہ اقلیتی برادری سےزیادہ مسلم برادری شراب کی بوتل حاصل کرتی ہے۔خیبرپختونخواکےوزیرعلی امین گنڈا پورجب دھرنےکےلئےاسلام آۤبادتشریف لائے تو اسلام آباد پولیس نےان کی گاڑی سے مبینہ طور پر جانی واکر ڈبل بلیک کی بوتل برآمد کرلی جس پرموصوف صفائی دیتے نظر آئے کہ وہ شراب کی نہیں شہد کی بوتل تھی۔اب ہماری پولیس اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ راتوں کو منہ سونگھ سونگھ کر کتنوں کو پکڑ کر اندر کرنے والوں کو شراب کی ہی پہچان ہو۔

حکمرانوں نےاپنی ساری توجہ دہشت گردی پرلگا دی ہےلیکن اللہ تعالی نے ہمیں جن کاموں سے روکا ہےاور معاشرے کو صالح بنانے کے لئے جن چیزوں کی ممانعت کی گئی ہے اس پر فرد کے ساتھ ریاست بھی خاموش ہے۔ بھٹونے شراب پر پابندی لگائی لیکن اس کا اطلاق نہ کراسکے ، اب دیکھیں بھٹو کے سیاسی اور سسرالی جانشین شراب پر پابندی کا اطلاق کیسے کراتے ہیں اورمیاں صاحب جن کے ہر انتخابی منشور میں ملک کو اسلامی اورفلاحی ریاست بنانے کا ذکرہوتا ہے وہ شراب سے متعلق کیا بڑا فیصلہ کرتے ہیں نہیں تو کل کلاں پھرکوئی بیٹااپنے باپ سے پوچھتا نظر آئے گا کہ بابا پارلیمنٹ لاجز میں شراب کون پیتا ہے؟

بلاگر18 سال سے پیشہ صحافت سے منسلک ہیں. ان دنوں 92 نیوز سے وابستہ ہیں
ان سے ان کے ای میل shahzadiqbal7@yahoo.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے